کالم نویس/اعجاز احمد طاہر اعوان
ہر سال پاکستان سمیت دنیا بھر میں 22 دسمبر کو “”وومن ورکنگ ڈے”” منایا جاتا ہے۔ اس وقت خواتین کو روزانہ کی بنیاد پر کام کی جگہ اور دوران ملازمت “”جنسی ہراساں “” کرنا اس وقت سب سے بڑا سنگین مسلہ بنا ہوا ہے۔ پاکستان کے اندر سال 2011 میں عورتوں کے کام کو تسلیم کرتے ہوئے ہر سال 22 دسمبر کا یہ دن “”وومن ورکنگ ڈے”” کے نام سے منانے کا عزم کیا گیا تھا۔ اور اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد بھی خواتین کی شناخت کو تسلیم کرنا اور ان خواتین کو قومی دھارے میں شامل کرنا اور دوران خواتین کام بے شمار درپیش پیچیدہ مسائل جن کا وہ شکار ہوتی ہیں آن کے تدارک کے لئے قانون سازی اور ان پر عمل درآمد کے سلسلہ کو عملی طور پر پی ٹی عزم سے پیوست کرنا بھی مقصود تھا۔ خواتین آج بھی عدم تحفظ کے باعث مختلف مسائل اور ذہنی دباو سے دوچار ہیں آج بھی خواتین تشدد اور حق تلفی کا بڑی طرح شکار ہیں۔ ملک کے اندر قانون سازی کے بعد خواتین میں ہراسیگی کے کیسز میں خاطر خواہ کمی ضرور آئی ہے۔ اور خواتین کے اندر اعتماد اور بھروسے میں خاطر خواہ تبدیلی بھی دیکھنے کو آئی ہے۔ دوسری جانب حکومت کی طرف سے 15 فیصد کا خصوصی کوٹہ خواتین کے لئے سرکاری ملازمتوں میں سے کوئی مختص کیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ کوٹہ آٹے میں نمک کے برابر ہے؟ اس وقت خواتین اپنی صلاحیتوں کی بدولت ملک کی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار بھی ادا کر رہی ہیں خواتین کے دن کے حوالے سے اس عالمی دن پر اب بھی خواتین کے حقوق اور مزید انہیں آسانیاں کی فراہمی کے لئے قانون سازی اور اقدات کی اشد ضرورت ہے.
122