my voice 116

میری آواز فلسطین میں امن کی خواہش

میری آواز
فلسطین میں امن کی خواہش

کالم نویس/اعجاز احمد طاہر اعوان

اس میں کوئی شبہ نہی کہ اسرائیل دنیا کے سینے پر ایک سلگتے ہوئے ناسور کی حیثیت رکھتا ہے۔ آج سے 76 سال پہلے اسلام دشمن سامراجی قوتوں نے اسے مسلم دنیا کے درمیان قائم کرایا۔ ان سامراجی قوتوں کی جانب سے یہودیوں کے بڑھتے ہوئے معاشی اور سیاسی اثر و رسوخ کو لگام دینے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے ازلی دشمنی کے بدلے چکانے کے لئے
اسرائیل اور مسلم دنیا کے درمیان تنازات کو ہوا دی ۔ بیت المقدس جو مسلمانوں یہودیوں اور عیسائیوں کے لئے یکساں تقدس کی حیثیت رکھتا ہے، کہ مسلے کو حل کئے بغیر یوں ہی چھوڑ دیا گیا تاکہ مسلمان اور یہودی اس شہر کو اپنے تسلط میں لینے کے لئے آپس میں لڑتے رہیں۔ گو کے بعد میں دیگر ممالک کی کوششوں سے اقوام۔متحدہ نے فلسطین اور اسرائیل کی آزاد ریاستوں کی قرار داد منظور کی۔ اس کے ساتھ ہی یہ تجویز بھی دی گئ کہ بیت المقدس کو ایک عالمی شہر قرار دیا جائے۔ جس کا اپنا آزاد انتظامی ڈھانچہ ہو اور اس شہر کو مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کی عبادت کےلئے کھلا رکھا جائے۔ بدقسمتی سے مسلم دنیا کے چند ممالک کو یہ بات پسند نہ تھی وہ چاہتے تھے کہ بیت المقدس صرف مسلمانوں کا شہر ہی تسلیم کیا جائے۔ بیت المقدس پر قبضہ کی خاطر حماس، حزب اللہ، اور الفتح جیسے دیگر کئی جنگجو گروپ تیار کئے گئے۔ جنہوں نے اسرائیل کے ساتھ پنجہ آزمائی شروع کر دی۔ انہیں حربی مدد دینے والے بھی وہی ممالک ہیں۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اسرائیل کو قائم کرنے والے ممالک خود بھی حربی اعتبار سے دنیا کی سپر طاقتوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے اسرائیل کو دفاعی اعتبار سے مضبوط کیا، اور کسی بھی جارحیت کی صورت میں اسے اپنی بھرپور مدد کی یقین دہانی بھی کروائی۔ آج خطہ کے مسلمان اسرائیل اور مغرب کے گھٹ جوڑ کو بھگت رہے ہیں۔ ان قوتوں کے سامنے حماس اور حزب اللہ کی کوئی حیثیت نہی۔ اگر فلسطین اور اسرائیل کے درمیان ایک زمانہ سے یہ جنگ چلی آ رہی ہے اور ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ یہ جنگی گروپس فلسطینی آبادیوں کے درمیان بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہیں سے یہ کاروائی کرتے ہیں اور اسرائیل کے جوابی حملوں سے بے گناہ اور معصوم فلسطینی متاثر ہوتے ہیں۔ دھائیوں سے یہی سلسلہ چلتا آ رہا ہے۔ یہ جنگیں لاکھوں فلسطینیوں کی جانوں کا خراج وصول کر چکی ہیں۔ اس کے علاوہ ہر بار شہر کا انفرا انسٹرکچر برباد ہو جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے فلسطینوں کو دیگر مسائل کے ساتھ رہائشی مسلہ بھی درپیش رہتا ہے۔ مسلمانوں سمیت دنیا کے دیگر ممالک نے اس قضیہ کو سلجھانے کی بڑی کوشش کی مگر کوئی خاص کامیابی نہیں ہوئی۔ صاف نظر آتا ہے کہ بہت سے مسلم ممالک بھی ان جنگجو گروپوں کی حمکت عملی سے متفق نہی ہیں۔ چونکہ آج دنیا میں ہر کوئی امن کا طالب ہے۔ لہذا کئی مسلم۔ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کر کے تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشیش شروع کر دی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ شائد جنگی گروپوں کو مسلم دنیا کی جانب سے اپنی حمائت میں کمی کا احساس ہو گا۔ اس طرح شائد فلسطین میں امن کی جانب کوئی پیش رفت ممکن ہو سکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں