my voice 105

میری آواز

میری آواز

کالم نویس/اعجاز احمد طاہر اعوان

امریکی اور یورپی سامراجی ممالک کی اسرائیل۔کے لئے غیر مشروط حمایت اور مسلمانوں پر مظالم کی عیانت سے اب یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ۔یہ سامراجی طاقتیں دنیا میں امن و امان کے حق میں نہیں ہیں۔ یہ ممالک چاہتے ہیں کہ انہی کو امن کا مسلک اور امن کے حوالے سے ان کے دعوں کو ہی امن کی صحیح کوشش تسلیم۔کر لیا جائے۔ چونکہ یہودیوں پر انسانیت کش مظالم کے بعد یہودی دنیا میں ایک مظلوم کمیونٹی کا روپ اختیار کر چکے تھے۔ اور اسی وجہ سے انہوں نے دنیا کے مختلف ممالک میں پناہ لینے کو ہی اپنی عافیت محسوس کیا۔ یہودی کیونکہ بنیادی طور پر تجارتی جنگ رکھنے والے لوگ ہیں لہذا انہوں نے خود کو ان ممالک میں نہ صرف معاشی مالی طور پر خود کو مستحکم کر لیا بلکہ معیشت پر اچھا خاصا کنٹرول حاصل کر لینے کے سبب ان کا سیاسی اثر و رسوخ بڑھنے لگا۔ اس تمام صورتحال سے سامراجی ممالک یہودیوں کو اپنے لئے خطرہ محسوس اور تصور کرنے لگے۔ انہوں نے اپنے لئے ایک علیحدہ ملک بنانے کے لئے یہودیوں کی ذہن سازی شروع کر فی۔ یہودیوں کے لئے یہ ایک خوشگوار خواب تھا لہذا انہوں نے اپنے لئے ایک علیحدہ مملکت کے قیام کو ہی سراہا اور امن کے لئے کوشیشں بھی شروع کر دیں۔ نتیجہ 1948 میں اسرائیل کو وجود عمل میں آ گیا۔ کیونکہ اسرائیل فلسطین کی سر زمین پر قائم کیا گیا جو صدیوں سے مسلمانوں کا وطن تھا۔ لہذا فلسطینیوں کو یہ بات ہرگز گوارا نہ تھی۔ یہی وہ نقطہ ہے جو یہودیوں اور فلسطینیوں کے درمیان نزاع کا سبب بنا۔ سامراجی طاقتوں کی منشا بھی۔یہی تھی کہ یہودی کسی نہ کسی طور کمزور رہیں۔ تاکہ ان کا ان ممالک میں معاشی اور سیاسی زور دوبارہ طاقت حاصل نہ کر سکے۔ یہ ممالک وقتا” فوقتا” فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جھگڑے اور فساد کا کوئی نہ کوئی سوشہ چھوڑ کر خونریزی کراتے رہے اور مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان نفرتیں بڑھاتے رہے۔ دیگر اقوام عالم کے نے دنیا میں امن کے قیام اور اسرائیل فلسطین کے درمیان خون ریزی کو ختم کرانے کے لئے بڑی کوششوں کے بعد 1966 میں فلسطین کو بھی علیحدہ مملکت بنوانے کی قرارداد اقوام متحدہ سے پاس کرائی۔ جس وقت اس قرارداد کو عملی جامعہ پہنانے کو وقت قریب آیا تو برطانیہ اس کام کو مکمل کرائے بغیر ہی واپس چلا گیا۔ یہ قضیہ یہی پر لٹکتا رہ گیا چونکہ دیگر مغربی سامراجی ممالک بھی اس خطہ میں امن و امان کے حامی نہیں تھے لہذا انہوں نے بھی اس پر کوئی توجہ نہ دی۔ ایک۔بار پھر دنیا کی کوششوں اور الفتح کے یاسر عرفات کی۔کاوشوں کی وجہ سے فلسطینیوں کو آزاد مملکت کے بجائے ایک میں آزاد ریاست فلسطین اتھارٹی کی شکل میں حاصل ہو گئی.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں