my voice 104

میری آواز

میری آواز
کیا ایران نے اسرائیل پر جنگی حملے میں حماس کی مدد کی

اسرائیل اور فلسطین کی جنگی کشیدگی اب دوسرے ہفتے میں داخل ہو گئی ہے۔ اور اب تک کسی مسلم ملک اور مشرق وسطی سے جنگ بندی کی کوئی عملی کوشش سامنے نہیں آ رہی۔ اور پوری امت اسلامیہ خاموش اور صرف بیانات تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ۔ ہر ملک اپنے ذاتی مفادات کے حصول تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ دفاعی اور سیاسی تجزیہ کار اور مبصر ین پیشن گوئی کر رہے ہیں کہ اس جنگ کا سلسلہ کہیں عالمی جنگ میں تبدیل نہ ہو جائے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ جنگ کے آغاز میں ایران نے بڑا اہم اور بنیادی رول ادا کیا ہے۔ اور ہر قسم کی جنگی سامان سے اپنی مکمل معاونت اور تعاون فراہم بھی کیا ہے۔ اس جنگ کے اثرات پورے خطہ کے اندر بڑے منفی ثابت ہورہے ہیں۔ پورے مشرق وسطی میں جنگ کے دوران اردگرد میں پھیلے مسلم ممالک کی جانب سے جنگ روکنے کی کوئی کوشش نہیں ہو رہی ہے۔ جس سے یہ اندیشہ بڑی تیزی کے ساتھ تقویت پکڑنے لگا ہے کہ یہ جنگ اب صرف یہودی اور مسلمانوں کے درمیان تک محدود نہیں رہے گئی۔بلکہ اس کے جنگی اثرات کا پھیلاو متعلقہ خطے کے ساتھ مسلم ممالک تک بھی ۔ پہنچے کا امکان ہے۔ادھر امریکہ نے کسی ملک کے نام کو ظاہر کئے بغیر اس بات کی کھلی پیشن گوئی بھی کر دی ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے مابین جنگ میں مکمل طور پر ایران ملوث ہے اور وہ کھلم کھلا اور پس پردہ رہ کر فلسطینی عوام اور حماس کی جنگی مدد کر رہا ہے۔ فلسطین کی طرف سے اسرائیل پر جنگی حملہ ایران اور کسی ہمسائیہ ملک کے تعاون کے بغیر انتہائی مشکل کام تھا۔ حالیہ جنگی تنازعے کا پھیلاو دن بدن شدت بھی اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اسرائیل کی طرف سے فلسطین کے عوام کے لئے خوراک پانی اور ضروریات زندگی کی بنیادی اشیاء کی بندش سے فلسطینی عوام کے لئے زندگی کا دائرہ تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ ادویات کے ناپید ہونے کے باعث فلسطین کے بے گناہ زخمی افراد موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہیں اور کسی بھی ملک کی طرف سے انہیں میڈیکل کی سہولت فراہم نہیں ہوپارہی ہے۔ ہسپتالوں کے اندر مریضوں کے لئے زندگی تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ جبکہ ہر سال ایران ایک کروڑ سے زائد کی مالی امداد بھی فراہم کرتا ہے۔ اب تک دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جا رہی صرف مسلم۔ممالک کی طرف سے بیانات پر ہی انحصار کا سلسلہ جاری ہے۔ جو اس نازک موقع پر کسی طور پر کافی اور امت اسلامیہ کو زیب نہیں دیتا؟ دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کی کوئی کوشش اب تک حقیقی طور پر سامنے نہیں آ رہی۔ او آئی سی “”OIC “” اسلامی تنظیم کی طرف سے اس کے تدارک اور روکنے کے لئے 18 اکتوبر کو ایک ہنگامی اجلاس بھی طلب کر لیا گیا ہے مگر باعث سوچ کا یہ امکان یہ بھی ہے کہ۔کیا ان اجلاسوں کے جنگ بندی پر کوئی مثبت اثرات مرتب ہوں گئے۔ عملی طور پر جنگ بندی کے لئے 55 سے زائد مسلم۔ممالک جو او آئی سی تنظیم کے ممبر ہیں ان کی طرف سے کوئی عملی اقدام اور مثبت نتیجہ سامنے آ سکے گا؟ یا پھر اٹھک بیٹھک تک ہی یہ نششت محدود رہے گی؟ اب یہ جنگ دوسرے ہفتہ میں داخل ہو چکی ہے۔ دفاعی تجزیہ کار یہ بھی پیشن گوئی کر رہے ہیں کہ۔اسرائیل اور فلسطین کے مابین یہ اچانک جنگ کا کس طرح شروع ہو گئی ؟ جبکہ جنگوں کے لئے باقاعدہ طور پر منصوبہ بندی میں سالہا سال لگ جاتے ہیں۔ یہ جنگ بھی فلسطین کی طرف سے کسی ہمسایہ ملک کے جنگی تعاون کے بغیر ناممکن تھی؟ جنگی سامان کی فراہمی کے بغیر اتنی بڑی جنگ کا آغاز نا ممکن اور بے یقینی کی کیفیت کی طرف بھی اشارہ کر رہا ہے۔ سیاسی مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایران کو ان دونوں ممالک کے درمیان جنگ سے دور رہنا ہی پورے خطہ کی سلامتی ہے۔ اس جنگ میں لاکھوں افواج کی مدد کی ہرگز ضرورت نہیں ہے بلکہ اب ضرورت صرف ایک صالح الدین ایوبی کا انتظار ہے۔ اس جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک 4 لاکھ سے زائد فلسطینی اپنی سر زمین چھوڑ کر کئی ہمسائیہ ممالک میں منتقل ہو چکے ہیں۔ مگر اس کے باوجود اسرائیل۔کی طرف سے جنگی حملوں کا سلسلہ تھمنے نہیں پا رہا۔ فلسطینی باشندوں کے لئے پانی خوراک ادویات اور زندگی کو بچانے کی دیگراہم اشیاء کا بھی سنگین مسئلہ سامنے آ تا جا رہا ہے۔ اور اس خطہ کی خطرناک صورتحال کی تباہی کی ذمہ داری اسرائیل بھی قبول کرنے پر رضامند نہیں ہو رہا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں