my voice 145

میری آواز (مسئلہ فلسطین ایک انسانی قضیہ)

میری آواز

مسئلہ فلسطین ایک انسانی قضیہ

کالم نویس اعجاز احمد طاہر اعوان

اسرائیل دنیا کے سینے پر ایک ناسور کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ مسلمانوں کی سر زمین پر اس مملکت کا قیام مغربی ممالک کی ایک سوچی سمجھی سازش تھی۔ اگر ہم بغور جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ۔مغربی دنیا یہودیوں کے مستحکم مالی حالات، تجارتی و معاشی معاملات میں بالادستی، اور اس بالادستی کے ذریعے ان کی سیاست اور حکمرانی میں یہودیوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے خائف تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان ممالک نے یہودیوں کے زور کو توڑنے کے لئے انہیں ایک علیحدہ ملک دینے کا فیصلہ کیا۔ اور اس ملک کے لئے ایسی جگہ کا انتخاب کیا گیا جو عیسائی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہودیوں کے لئے بھی مقدس تھی۔ غرض کہ یہ ایسی جگہ تھی کہ جہاں ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کو ابھار کر جھگڑا آسانی سے پیدا کیا جا سکتا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب سے اسرائیل کا قیام عمل میں آیا ہے مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان ایک مستقل تنازعہ پیدا ہو گیا۔ دنیا کے دیگر ممالک نے اس تکلیف دہ صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے فلسطینیوں کے لیئے ایک علیحدہ مملکت کا مطالبہ کیا۔ جو اقوام متحدہ کی آزاد فلسطین کی قرار دادوں کی صورت میں 1966 میں
ثمر آور ہوا۔ کیونکہ مغربی ممالک اقوام عالم کی اس تحریک کو پسند نہیں کرتے تھے۔ لہذا انہوں نے قیام فلسطین کی کسی نا کسی طرح مخالفت جاری رکھی۔ اور قیام مملکت فلسطین کو بار آور نہیں ہونے دیا۔ اس کو ایک ایسا مستقل قضیہ بنا دیا جو آج تک حل ہونے کا نام نہیں لیتا۔ اس دوران فلسطین کے مسلمانوں کی مایوسی بڑھتی رہی، جو بالآآخر اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جھگڑے کی صورت میں سامنے آتی رہی۔ چونکہ فلسطینی ایک بکھری ہوئی کمیونٹی کی صورت اختیار کر چکے تھے لہذا ان میں بہت سے جہادی گروہ پیدا ہو گئے جو اکثر بیشتر اسرائیل کے ساتھ نبرد آزما رہنے لگے۔ فلسطینیوں کی مدد کے لئے ان کے اسرائیل مخالف ہمنوا مسلم ممالک نے ہتھیاروں سمیت دیگر امداد شروع کر دی۔ جس نے فلسطین اسرائیل جنگ کو باقاعدہ اور مسلسل بنا دیا۔ دنیا کے بیشتر ممالک ان کوششوں میں آج تک مصروف ہیں۔ کسی صورت فلسطین کی آزاد مملکت قائم ہو جائے تاکہ خطہ میں خون ریزی ختم ہو اور امن قائم ہو جائے۔ بدقسمتی سے مغربی ممالک کے مفادات یہودیوں کو چین سے نہ بیٹھنے دینے میں ہیں، لہذا آزاد فلسطین کی ریاست کا قیام ممکن نہیں ہو پا رہا۔ کیونکہ یہ مغربی ممالک معاشی اور حربی طور پر طاقت ور ہیں۔ اور دنیا مختلف پول میں تقسیم ہے، لہذا بہت سارے ممالک اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل کرانے سے کتراتے نظر آتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ بہت سے مسلم ممالک بھی اپنے سیاسی و مالی مفادات اور حربی کمزوریوں کے باعث اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی مدد سے قاصر نظر آتے ہیں۔ یہ دنیا کا عجیب دہرا معیار ہے کہ جہاں طاقت ور ممالک اپنے مفادات ہوتے ہیں وہاں وہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو تو چھوڑئیے یہ ممالک خود ہی دنیا کے تنازعات میں کود کر اسے اپنی مرضی کے مطابق حل کرا لیتے ہیں۔ اگر اقوام عالم مصلحتوں کا شکار ہوئے بغیر اس انسانی قضیے اور حقوق انسانی کی پاسداری کی خاطر فلسطین کی آزاد مملکت کے قیام کو ممکن بنا دیں تو دنیا کے اس خطے میں امن بحال ہو سکتا ہے۔ ورنہ صورتحال بگڑ کر ایسی جگہ پر پہنچ چکی ہے کہ تیسری جنگ عظیم کا خطرہ دنیا کے سر پر منڈلانے لگا ہے۔ یہ سمجھنے میں کسی کو بھی خوش فہمی نہیں ہونی چاہیئے کہ اس جدید دور کے خطرناک ہتھیاروں سے دنیا محفوظ رہ پائے گئی.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں