my voice 140

میری آواز (کالم نویس/اعجاز احمد طاہر اعوان)

میری آواز

کالم نویس/اعجاز احمد طاہر اعوان

پاکستان کے اندر 1958 میں مساجد، مزارات اور دیگر وقف املاک کو برقرار رکھنے اور ان کی دیکھ بھال اور حفاظت کے لئے باقاعدہ طور پر ایک انتظامی امور کے لئے “” محکمہء اوقاف”” قائم کیس گیا، اور اس وقت سے یہ اپنے فرائض سر انجام بھی دے رہا ہے۔

اکثر و بیشتر یہ خبریں میڈیا کے حوالے سے پڑھنے کو ملتی رہتی ہیں۔کہ “”محکمہ اوقاف”” کے زیر انتظام مساجد اور مزارات کو نزرانوں کی اور چندوں کی مد میں خطیر رقوم حاصل ہوتی ہیں۔اور بسا اوقات ملک کے اندر بڑی بڑی درگاہوں اور مزارات سے سالانہ کروڑوں روپے برآمد ہوتے ہیں۔ اگر ایسے پورے پاکستان کے اندر ایسے ہزاروں مزاروں کا حساب لگایا جسئے۔ تو بخوبی اندازہ ہو گا کہ یہ رقم اربوں روپے سے بھی تجاوز کر جائے گئی۔ ایم خصوصی سروے اور باخبر ذرائع کے مطابق ستر فیصد عوام نے یہ انکشاف اور شکایت کی ہے کہ “” محکمہء اوقاف”” کے تحت جمع ہونے والی کروڑوں روپے کی آمدن کا صحیح استعمال بھی ہو رہا ہے کہ نہی؟ اور اس میں کس حد تک ایمانداری کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ اور اس کی کمائی کے اندر ایماندسری اور گھپلوں کا عنصر کس حد تک ہو سکتا ہے۔ “” محکمہء اوقاف”” کی کارکردگی کے بارے لوگ مشکوک بھی ہیں کہ اس میں وسیع اور بڑے پیمانے پر خردبرد اور بد دیانتی کا عنصر بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ چیک اینڈ بیلنس کا کتنے فیصد حصہ ایمانداری پر مشتمل ہے؟ کیونکہ آمدنی کے لحاظ سے مزارات درگاھوں اور مساجد کو دی جانے والی سہولیات میں کوئی خاص تبدیلی نظر نہی آتی۔ عوام۔کو اس بات کا بھی قوی اندیشہ اور شبہ بھی یے کہ “”محکمہء اوقاف”” سے مل کر متولیوں اور بحرانوں نے ایک باقاعدہ مافیا گروپ ترتیب دے رکھا ہے۔ جو جمع ہونے والے وسیع چندے میں بڑے پیمانے غبن اور فراڈ کرتے ہیں کے مرتکب پائے جاتے ہیں۔ جو آج تک گرفتار نہی ہو سکے۔ اور وہ کھلے عام گھپلوں کے گروہ کے سرغنہ کے طور پر دن رات کام کر رہے ہیں۔ عوام کا پرزور مطالبہ ہے کہ ہر مزار و مسجد کی نہ صرف آڈٹ رپورٹ کو ہر سال شائع کیا جائے بلکہ ان میں ایماندار اور خوف خدا کے جذبات رکھنے والوں کو “”محکمہء اوقاف” میں ملازمت پر رکھا جائے۔ اور جمع ہونے والی رقوم کے صحیح استعمال کو بھی یقینی اور محفوظ بنایا جائے۔ تاکہ لوگوں کا اس نیک اور صالح ادارہ کے ساتھ یقین محفوظ اور حساب کتاب کے اعداد و شمار کو بھی بروقت اور معلومات کے دائرہ کے اندر لایا جا سکے؟؟؟؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں