my voice Ejaz Ahmad Tahir Awan 125

ملکی سیاست کے اہم فیصلے ملک سے باہر “لندن” میں ہونے لگے

☆☆میری آواز☆☆
ملکی سیاست کے اہم فیصلے ملک سے باہر “لندن” میں ہونے لگے،،،!! کسی کو 24 کروڑ عوام کی بھی کوئی ہے فکر

کالم نویس/اعجاز احمد طاہر اعوان

اس وقت ملک جس ہیجانی آئینی اور سیاسی بحران کی کیفیت سے گزر رہا ہے اس سے پہلے یہ نوبت کبھی ماضی میں دیکھنے کو نہی ملتی، اب یہ کشیدگی دن بدن بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے، سیاسی معاملات کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ آف پاکستان اور عدالتی نظام بھی “آلودہ” ہوتا جا رہا ہے، سیاسی لوگ انصاف نہیں “من پسند” اور مرضی کے فیصلے چاہتے ہیں، اس نازک اور آزمائش کی گھڑی میں ملک کا سارا نظام زندگی بھی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے، قوت برداشت تحمل اور روا داری کی تمام حدود پامال ہو کر رہ گئی ہیں، اب ملک کو اس وقت بنیادی مسائل کے حل کے لئے ملک کے سیاسی مسائل کو بیرون ملک جا کر مشاورت اور حل کرنے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے، اس نازک موقع پر 24 کروڑ عوام کو درپیش بنیادی مسائل، مہنگائی، بے روزگاری، غربت، اور قانون شکنی کی کسی کو نہ ہی ہوش ہے، اور نہ ہی ان کے بارے سوچا جا رہا ہے، یہی سیاسی جماعتیں جو کبھی عوام کے مسائل میں دلچسپی لیا کرتی تھی مگر اب تو وہ بھی کہیں نظر نہی آ رہا، اور عوام کے احتجاج کے کوئی باہر سڑکوں پر بھی نہی نکل رہا، اب ملک کی تقدیر اور قسمت کے فیصلے کرنے کے لئے بیرون ملک جا کر اپنے سر جوڑ لئے ہیں، پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف اپنے بڑے بھائی مئی چالوں اور ہدایات کے لئے بیرون ملک لندن جا کر بیٹھ گئے ہیں، یہ کبھی نہی ہوا کہ ملک جن مسائل کی گرداب میں آج پھنسا ہوا ہے اس کا حل فیصلے ملک کے اندر عوام کے سامنے ہی کئے جائیں، کبھی یہی فیصلے آصف علی زرداری بھی دوبئی میں بیٹھ کر پاکستان کے تمام سیاسی فیصلے کیا کرتے تھے آج وہی تاریخ ایک بار پھر دہرائی جا رہی ہے، ملک کے اور سیاسی جماعتوں کے درمیان اس کشیدہ ماحول سے نکلنے کے لئے اور موجودہ عدلیہ کے وقار کو مجروح کرنا زیب دیتا ہے، ملک کی موجودہ سیاسی جماعتیں سب مل کر آئینی بحران کو طوالت دے رہی ہیں، شہباز شریف اپنے اقتدار کی کرسی کو بچانے کے لئے اپنے بڑے بھائی کی گود میں جا کر بیٹھ گئے ہیں، اور وزیراعظم کو اپنی کرسی کے چھینے جا ے کا بھی خوف سر پر منڈلا رہا ہے، ملک۔کے 24 کروڑ عوام کے سنجیدہ مسائل سے چھٹکارا کے لئے آج تک ملک کی سیاسی جماعتیں سر جوڑ کر کبھی نہی بیٹھیں، یہ بھی سب کچھ پہلی بسر ہی تو ہو رہا ہے، ہونا تو یہ چاہئے کہ۔اس وقت ملک جس کشیدگی کی بھنور کا شکار ہے اس کے بارے ملک کے اندر رہ کر اور بیٹھ کر سارے فیصلے کئے جائیں، اگر ملک کی کسی کو کوئی فکر لاحق ہے تو وہ ملک کے اندر واپس آ کر ملک کو اس موجودہ بحران کو نکالنے کی کوشش کرے؟ اس کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے انتخابات کا کوئی۔مثبت اور ٹھوس حل تلاش کیا جائے، جس سے ملک انتشار کی اس کیفیت سے کامیابی کے ساتھ باہر نکل سکے،

حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان ہونے والے مذاکرات بھی جزوی طور پر کامیاب نہی ہو سکے، اور درمیانی راستہ کے ملے جلے تاثرات ہی سامنے آ رہے ہیں، حکومت وقت نے اپنے اقتدار کو بچانے کی خاطر تحریک انصاف سے مزاکرات کے لئے لچک دکھائی ہے،ورنہ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھنے پر کسی صورت بھی رضامند نہی تھیں، دونوں اپنی اپنی سازشی چالوں کے مہروں کی سازش کر رہی ہیں، حکومت کی یہ کوشش بھی ہے کہ انتخابات کو موخر کر کے اقتدار کے لئے مزید وقت مل جائے، اور ملک کے اندر جو اس وقت مسلم لیگ ن کی سیاسی پوزیشن ہے اس کو مستحکم اور حصول ووٹ کے لئے وقت اور مل جائے، ایک اور قابل غور نقطہ یہ بھی ہے، کہ اگر ملک کے اندر انتخابات ہو جاتے ہیں تو کیا انتخابات میں ہارنے والی سیاسی جماعت ان نتائج کو ایمانداری سے قبول کر لے گئی، اگر ایس ہو جاتا یے تو ملک ایک بار پھر انتشار کی بھنور میں آ کر پھنس جائے گا، اس وقت ملک بڑے ہی نازک موڑ پر آ کھڑا ہوا ہے، عدلیہ، آئین اور پارلیمان کے درمیان ایک جنگی کیفیت کے اندر پھنس کر رہ گیا ہے، حکومت سپریم۔کورٹ کو اپنے انڈر لانے کی سازشوں میں ملوث ہو کر رہ گئی ہے، اور چاہتی ہے کہ عدلیہ سے اپنی مرضی کے فیصلے کروائے جائیں، اور سپریم۔کورٹ سیاست دانوں کے دباو آ جائے، اب یہ نوبت آ گئی ہے کہ اس وقت آئین اور پالیمان دونوں کے درمیان ایک جنگ کی کیفیت ہے، اس سے پہلے پاکستان کے اندر کبھی یہ حالت نہ تھی، ملک کو سیاسی اور آئینی بحران سے نکالنے کا ایک ہی حل ہے کہ بات چیت اور مزاکرات کے ذریعے کوئی درمیانہ راستہ ملک اور قوم کے بہترین مفاد کو مدنظر تکھ کر تلاش کیا جائے اور ملک کو اس خطرناک حالات سے باہر نکالا جائے، اگر اس فیصلہ اور اقدام میں تاخیر کر دی گئی، تو ملک مزید حالات کی خرابی کا کبھی بھی متحمل نہی ہو سکے گا،

ملک کے سیاسی مبصرین کا یہی کہنا ہے کہ ملک کے بہترین مفاد کا یہ ہی تقاضا ہے کہ بر وقت انتخابات ہی جمہوریت کی اصل روح ہے، اس وقت “PDM” کے اقتدار میں شامل 13 مختلف نظریات کی حامل سیاسی جماعتیں یہ ہرگز نہی چاہتی کہ ملک کے اندر انتخابات کا انعقاد ممکن ہو، وہ اپنے اقتدار کو طوالت انتخابات میں تاخیر سے ہی دینے میں کامیاب ہو سکتی ہیں، ملک کے اندر آئی اور پارلی۔ان کے درمیان یہ موجودہ جنگی کیفیت کے نتائج بڑے ہی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں، جس کے بارے مثبت سوچ کا دائرہ ہم سب سے کوسوں دور ہے، ملک کے فیصلوں کے اندر جس قدر تاخیر ہو گئی، ملک سیاسی دلدل میں مزید پھنسا چلا ہی جائے گا، سپریم کورٹ اور حکومت کے درمیان موجودہ کشیدگی کو اب ختم ہو جا چاہئے،

اس وقت سپریم کورٹ ایک آئینی ادارہ کی حیثیت رکھتا ہے، اگر سپریم کورٹ کی تذلیل کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو ملک کے اندر کون انصاف کے فیصلے کرے گا؟ دونوں اداروں کی سلامتی خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے مگر سوچنا یہ بھی ہے ملک کو اس وقت اس نازک گھڑی سے کون اور کسی طرح ممکن بنایا جا سکے گا، ملک کی سیاسی جماعتیں اپنے اندر لچک کو پیدا کرنے کی صلاحیت کے بارے کچھ تو غور کریں، ملک کے تمام سیاسی فیصلے ملک کے اندر رہ کر کئے جائیں، بیرون ممالک کی ڈکٹیشن کبھی ملک کو سیاسی اور آئینی بحران سے نہی نکال سکتیں، ملک کو بچانا ہے تو ہم سب تو کچھ مشکل فیصلے کرنے ہی پڑیں گئے، یہ وقت کا تقاضا اور وقت کی ضرورت بھی ہے،

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں