ناکام تجربات
محمد امانت اللہ جدہ
دنیا میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ سیکورٹی کا ھے بلکہ بعض اوقات سیکورٹی رسک بھی کہا جاتا ھے
ہماری قوم کے بچے بچے اس لفظ سے واقف ہیں مگر سیکورٹی کو کسی خاطر میں نہیں لاتے ہیں.
انکا ماننا ھے زندگی اور موت تو اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ھے.
ہمارے سیکورٹی ادارے ہر تھوڑے دنوں کے بعد سیکورٹی اطلاعات کی بریفنگ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں نہ صرف یہ بلکہ دہشتگردوں کی تعداد بھی بتاتے ہیں ، کتنے شہر میں داخل ہو گئے اور کتنا بارودی مواد لے کر آئے ہیں۔
وزیراعظم ہاؤس میں اہم اجلاس منعقد ہوتا ھے کونے میں کرسی پڑی ہوتی ھے جس پر ایک بارودی بریگیڈیئر رینک کا آفسر بیٹھا ہوتا ھے
سوال کرنے پر معلوم ہوا سیکورٹی فراہم کرنے کے لیے موجود رہتے ہیں.
ہونا تو یہ چاہیے تھا یہ کام کوئی سپاہی سر انجام دیتا۔
شاید پاکستان دنیا کا واحد ملک ھے جس میں وزیراعظم ، صدر اور ایوانوں کی سیکورٹی ہمارے فوجی بھائی کرتے ہیں.
دنیا میں وزیراعظم، صدر اور ایوان نمائندگان کو سیکورٹی وہاں کی پولیس یا اسپیشل سیکورٹی ادارے فراہم کرتے ہیں.
سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے فوج کو سیاست سے الگ رکھنے کے لیے وزیراعظم ہاؤس میں سیکورٹی کے نام پر کسی بھی فوجی کی تعیناتی کو یکسر مسترد کر دیا تھا.
انہوں نے FSF یعنی فیڈرل سیکورٹی فورسز کا قیام عمل میں لائے،حفاظت کی ذمہ داری انکو سونپ دی گئی.
اسپیشل سکیورٹی کو ذوالفقار علی بھٹو نے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔
مخالفین کو ڈرانا دھمکانا اور ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔
احمد رضا قصوری کا قتل بھی اسی ادارے کے ذریعے کروایا گیا ایف آئی آر کے مطابق جنرل ضیاءالحق نے اقتدار سنبھالتے ہی سب سے پہلا کام اس ادارے کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا، یعنی حکومتی شخصیات کو سیکورٹی فراہم کرنا اسٹیبلشمنٹ کا کام ھے.
ہونا تو یہ چاہیے تھا باوردی افسر کمرے کے باہر سیکورٹی کے فرائض سر انجام دیتا مگر ایسا نہیں ھے.
اسٹیبلشمنٹ کو یہ اختیار کس نے دیا ھے کہ وہ اپنے آفسر کی ڈیوٹی وزیراعظم ہاؤس میں لگائے، جہاں اعلٰی ترین اجلاس کی کارروائی ہو رہی ھے.
درحقیقت یہی مداخلت کہلاتی ھے کیونکہ کبھی کسی سولین ادارے کو یہ استحقاق حاصل نہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کو سیکورٹی فراہم کرے.
سابق چیف صاحب نے اپنے خطاب میں کہا تھا فروری 2022 سے اسٹیبلشمنٹ نے سیاسی مداخلت ختم کر دی ھے.
حکومتی اجلاس میں باوردی سیکورٹی افسر کا موجود ہونا اس بات کی نشاندہی ھے، اسٹیبلشمنٹ کا کوئی ارادہ نہیں ھے خود کو سیاست سے الگ رکھنے کا.
ملکی سیاست میں مداخلت تازہ ترین صورتحال چند لفافی صحافیوں کے ذریعے پیغام دیا جا رہا ھے ملک میں ٹیکنوکریٹ کی حکومت قائم ہونے جا رہی ھے۔
اسکو مکمل سیاسی اور قانونی اختیار حاصل ہوگا فیصلہ کرنے میں۔
نظریہ ضرورت کو استعمال کرتے ہوئے انکو قانونی تحفظ فراہم کیا جائے گا ماضی میں معین قریشی کی مثال موجود ھے.
اسٹیبلشمنٹ موجودہ حکومت کو لے کر آئی تھی ، پریس کانفرنس میں کہا تھا اسٹاک مارکیٹ اور روپے کی قدر بہتر آئی ھے انکے آنے سے۔
آج انہی لوگوں کی طرف سے صحافی برادری ٹیکنوکریٹ کے حق میں آوازیں بلند کر رہے ہیں۔
ملکی معاشی طور پر تباہی کے قریب پہنچ چکا ھے.
ہمارے ناکام تجربات ختم ہونے کا نام نہیں لیتے.