Aitzaz Ahsan gives his opinion regarding the election 406

سعودی دارالحکومت ریاض میں “خاتون اول ” صحافی برادری کی درخشندہ ستارہ

سعودی دارالحکومت ریاض میں صحافی برادری کی درخشندہ ستارہ
“محترمہ شاہین جاوید”
کہنہ مشق صحافی، ادیب، شاعرہ، مستقبل کے معماروں کی تعلیم اور کردار سازی میں ہمہ تن مصروف ماہرتعلیم اور پاکستان رائٹرز کلب لیڈیز چیپٹر کی کوارڈینیٹر کے فن کی دنیا کا ایک ورق

ایک شخصیت ایک تعارف

خصوصی انٹرویو/ اعجاز احمد طاہر اعوان

میرا تعلق پاکستان کے شہر لاہور سے ہے اور بچپن سےسعودی عرب میں اپنی فیملی کے ساتھ مقیم ہوں ۔ میں نے ابتدائی تعلیم پاکستان انٹرنیشنل اسکول ریاض، ناصریہ سے حاصل کی۔ لاہور ، پاکستان  سے کمپوٹر کی ڈگری حاصل کی۔ ڈگری حاصل کرنے کے فورا بعد پاکستان انٹرنیشنل اسکول ریاض کے گرلز سیکشن کالج ونگ میں بطور کمپیوٹر ٹیچر خدمات انجام دیں اور ٹیچینیگ کا آغاز کیا۔ علاوہ ازیں گزشتہ 12 سال سے صحافت سے منسلک ہوں اور مختلف پرنٹ میڈیا  اور الیکٹرانک میڈیا سے منسلک ہوں۔ 
ریاض میں موجود مختلف سماجی ، فلاحی اور میڈیا تنظیموں کی سینیئر ممبر اور میڈیا انچارج ہوں۔
علاوہ ازیں انٹرنیشنل میڈیا فارم کی بھی ممبر ہوں.

بچپن سے ہی مجھے پڑھنے لکھنے کا شوق تھا اور اس شوق کی تسکین کے لئے ڈائجسٹ پڑھا کرتی تھی۔ جس سے مجھ میں لکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ میری پہلی تحریر سعودی عرب کے مشہور اردو اخبار ” اردو نیوز ” میں پلیٹ فارم کے نام سے شائع ہوئی جسے بہت پذیرائی ملی اور یہی پلیٹ فارم میری پہچان بنا ۔ بعدازاں میں نے” موبائل کا انٹرویو” بہت انوکھے اور دلچسپ انداز میں تحریر کیا اور جسے بہت پسند کیا گیا۔ سعودی عرب کے نیوز پیپر “سعودی گزٹ ” میں بھی ریاض سے بطور صحافی اپنی خدمات فراہم کی۔  اس کے علاوہ پاکستان کے اخبارات سماء نیوز ، اوصاف ، اردو پوائنٹ ، ڈیلی پکار اور دیگر آئن لائن پلیٹ فارم میں میری کالم اور رپورٹس پبلش ہوتے رہے ہیں اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے۔
پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ الیکٹرونک میڈیا سے بھی منسلک ہوں اور پاکستان کے چینل  Atv news میں بھی کام کیا۔ اس کے علاوہ پی این پی ، آواز نیوز ، نیوز ٹائم اور دیگر چینلز کے ساتھ منسلک ہوں۔ 
اس کے علاوہ “Riyadh’sAdventure ” کے نام سے میرا خود کا یو ٹیوب چینل ہے جس کو بہت کم وقت میں ماشاء اللہ سے بہت مقبولیت حاصل ہوئی اور ریاض کی معروف سعودی خواتین کے انٹرویوں کے ساتھ ساتھ  پاکستان کونصلیٹ کی اہم شخصیات کی جانب سے بھی بہت پذیرائی ملی۔ Riyadh’s  Adventure کا بنیادی مقصد سعودی عریبیہ میں  موجود خوبصورت ، انوکھی ، اعلی اور بہترین معلومات فراہم کرنے کے علاوہ ریاض شہر میں ہونے والی تقریبات ، تاریخی مقامات اور ریاض شہر کے ایڈوینچرز  اور پاکستان ایمبیسی  کی جانب سے جاری شدہ اہم معلومات کو پاکستانی عوام تک پہنچانا ہے۔ چند عرصے کے دوران اب تک 1M سے زائد ویورز Riyadh’s Adventure کو وزٹ کر چکے ہیں.

گریجویشن کے فورا بعد ہی پاکستان انٹر نیشنل سکول ناصریہ میں بطورکمپوٹر ٹیچر ، ٹیچینیگ کا آغاز کیا. ماشاء اللہ سے  ریاض کے مختلف معروف انٹرنیشنل سکولز میں 12 سال سے بطور ٹیچر خدمات سر انجام دیں ہیں اور اب تک الحمد اللہ یہ سلسلہ جاری ہے۔ 
پاکستان رائیٹرز کلب سے تقریبا 13 سال سے منسلک ہوں.
پاکستان رائیٹرز کلب اور لیڈیز چیپٹر ریاض “PWC” کی سینیئر ممبر ہوں ۔ لیڈیز چیپٹر کی بانی ممبران میں سے ہیں اور گزشتہ 4 سال سے پاکستان رائیٹرز کلب اور لیڈیز چیپٹر کی میڈیا کوریج انچارج بھی ہوں  ۔ رائٹرز کلب اور لیڈیز چیپٹر کے پروگرامز اور تقریبات کی بہترین میڈیا کوریج پر کلب کی جانب سے مجھے متعدد اعزازی شیلڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔

رائٹرز کلب اور لیڈیز چیپٹر کی شمولیت کے لئے امیدوار کو باقاعدہ طور پر اپنے کوائف درج کروانے ہوتے ہیں۔ پھر کلب کے ممبران کی ایک ٹیم تشکیل دی جاتی ہے جو باقاعدہ طور پر امیدوار کا انٹرویو کرتے ہیں اور اپنی رائے کلب کے صدر اور ممبران کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ پھر ووٹنگ کے ذریعے اس کو کلب میں ایڈ کیا جاتا ہے۔

شہر ریاض میں خواتین کی چند تنظیمیں ہیں جن کا بنیادی مقصد خواتین کو سیر و تفریح فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ گھریلو بزنس کی ترغیب بھی دی جاتی ہے اور انہیں اپنے بزنس کو پروموٹ کرنے کے مواقع بھی دیئے جاتے ہیں۔
اوورسیز خواتین کو بہت سے گھریلو مسائل کا سامنا ہے جن کے حل کے لئے ایمبیسی سے حصوصی مدد طلب کی جاتی ہیں اور کوشش کی جاتی ہے کہ ان کے مسائل حل کئے جا سکیں ۔

بعدازاں رائٹرز کلب اور لیڈیز چیپٹر کی جانب سے بھی متعدد شیلڈز اور سرٹیفیکیٹ مل چکے ہیں اور ریاض کی مختلف تنظیموں کی جانب سے بھی بہت پذیرائی ملتی رہی ہے.

سعودی عریبیہ میں موجود پاکستانی کمیونٹی کو اپنے بچوں کے مستقبل اور پڑھائی کے حوالے سے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جن میں سب سے بڑی مشکل۔یہ ہے کہ انہیں اپنے بچوں کی اعلی تعلیم کے لئے بہترین رہنمائی میسر نہیں ہو پاتی۔ مملکت میں اعلی تعلیم کے حصول کے لئے پاکستانی یونیورسٹی کی کوئی شاخ میسر نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے والدین کو اپنے بچوں کے بہتر مستقبل اور تعلیم کے حصول کے لئے وطن واپس بھیجنا پڑتا ہے جن کی بدولت انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

مجھے ڈاکٹر بننے کا شوق تھا پر اللہ کو کچھ اور منظور تھا۔ اور میں اللہ کی رضا میں راضی۔  بچپن سے ہی مجھ میں اللہ کی طرف سے کچھ بننے کا شوق تھا جس کی وجہ سے میں پڑھائی میں بہت اچھی تھی اور اکثر پہلی پوزیشن حاصل کرتی رہی تھی۔ پڑھنے لکھنے کا جنون اب بھی ہے۔ مجھے علم حاصل کرنے کا بہت شوق ہے۔ اور میں سمجھتی ہوں علم ہی ہے جو انسان کو حیوان بننے سے روکتا ہے.

رپورٹنگ کے علاوہ معتبر اور معزز شخصیات کا انٹرویو کرنا ، معاشرتی رویوں کی عکاسی، فیچرز ، کالم ، کبھی کبھار فکاھیہ اور پلیٹ فارم کے حوالے سے تحریریں لکھی ہیں۔

میری زندگی کا ادھورا کام اپنی ماں کی بھرپور خدمت کرنا ، جو شاید نا سمجھی میں نہیں کر پائی ۔ پر والدہ کے جانے کے بعد اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ ماں باپ کتنی بڑی نعمت ہوتے ہیں ۔ ان کا وجود اولاد کو ہر طرح تخفظ فراہم کرتا ہے اور ان کے جانے کے بعد بچے تپتی دھوپ میں سفر جاری رکھتے ہیں۔ اور انہیں ماں کی دعائیں میسر نہیں ہوتی۔???? اللہ ہماری والدہ کو جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے اور ان کی بال بال مغفرت فرمائے۔ان کی قبر کشادہ ، روشن اور خوشبودار بنا دے ۔ آمین۔ یا رب العالمین

تقریبا  2 سال سے PNP کے ادارے سے منسلک ہوں ۔ جس طرح PNP نے کم عرصہ میں بہترین پرفارمنس دیکھائی ہے اور جس قدر اس پلیٹ فارم کے ایڈمنسٹریشن مخنتی اور  قابل ہیں۔ اس پلیٹ فارم کا مستقبل یقینا بہت روشن ہو گا۔ یقینا اس پلیٹ فارم کو مزید کامیاب کرنے کی کوشش جاری رہے گی۔   

میری سوچ کے مطابق ، دیار غیر میں رہنے والا ہر پاکستانی ، پاکستان کا نمائندہ ہے۔ اور سب کو مل کر اپنے ملک کی بہتری کے لئے کام کرنا چاہیئے اور آپسی اختلافات مٹا کر ، ذاتی مفاد کو ترک کر کے ملک کی ترقی اور فلاح و بہبود کی خاطر یکجا ہو کر کام کرنا چاہیئے.

صحافت ایک بہت بڑی زمہ داری ہے ۔ سچ اور جھوٹ کو واضح کرنے والی ، دنیا کے سامنے حقیقت کو بیان کرنے والی ، حق و سچ کی ضمانت دینے والی یہ ذمہ داری عام ذمہ داری نہیں۔ صحافی اپنے قلم کے ذریعے معاشرے میں ہونے والی اچھائیوں اور برائیوں کی عکاسی بہترین انداز میں کرتا ہے۔قلم میں اس قدر طاقت ہوتی ہے جو دلوں و دماغ کی منفی سوچ کو مثبت سوچ میں بدل سکتی ہے۔اور مثبت کو منفی میں۔ اس لئے یہ لکھنے والے پر ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور صحافی معاشرے کی اچھائی اور بڑائی کو بدلنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

ریاض میں ایسی صحافتی تنظیمیں موجود نہیں جو صرف خواتین پر مشتمل ہو۔۔ مستقبل میں خواتین کو امپاور کرنے اور ان کے مسائل کے حل کی تلاش کے لئے کوشش ہے کہ کوئی ایسا لائحہ عمل تشکیل دیا جائے جہاں سب خواتین کی نہ صرف دنیاوی بلکہ نفسیاتی معملات کی طرف توجہ دے کر حالات و واقعات کی بہتر بنانے کی کوشش کی جائے۔
 
پاکستان رائٹرز کلب اور لیڈیز چیپٹر اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے پاکستان کا نام روشن کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرے گا اور دیگر منفرد اور با مقصد پروگرام بھی منعقد کرے گا جن سے پاکستانی کمیونٹی کو بہت فائدہ حاصل ہو گا۔ اور پاکستان کا نام بھی روشن ہو گا۔ 
 
چند اشعار میری ڈائری سے
 
پھولوں کی طرح تراشے ہوئے مجسموں میں
پتھر کے دل تھے ، موم کے انسانوں میں

————–
ڈرنا ، ہمارے وجود کا حصہ نہیں ہے۔
زندہ تحریر ہیں ہم ، کوئی قصہ نہیں ہے۔
زخموں کی شدت سے شناسائی ہے بہت
سمٹے ہیں بہت، بکھرنے کا صدمہ نہیں ہے
گہرائیوں میں اتر کے دیکھا ہے ہم نے
لہروں میں ڈوبنے کا کوئی خوف نہیں ہے
رکھتے ہیں پرواز اپنی منفرد اوروں سے
زمانے میں ہم جیسا کوئی اور نہیں ہے۔

————–
حسرتیں تب جنم لیتی ہیں جب انسان دنیا کو اپنے مطابق نہ چلا پائے ۔ پر جب انسان رب کی رضا میں راضی ہونا سیکھ لے تو دکھ بھی سکھ میں بدل جاتے ہیں۔ اور جب سے میں نے رب کی رضا میں راضی ہونا سیکھا ہے تب سے
اللہ کا کرم ہے کہ کوئی حسرت باقی نہیں ۔ اللہ نے مجھے میری اوقات سے بڑھ کر نوازا ہے اور ہمیشہ مجھ پہ کرم کیا ہے۔  جو دیا اس سے میں بہت مطمئن اور پر سکون ہوں۔ بس دعا ہے رب سے کہ اللہ مجھے اور میری فیملی کو ہمیشہ اپنے رحمت کے سائے تلے رکھے۔ اور ہم سے راضی ہو جائے۔ دنیا کے ساتھ ساتھ ہماری آخرت بھی سنوار دے۔ آمین
استاد ایک رول ماڈل ہوتا ہے اپنے بچوں کے لئے۔ استاد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کی نہ صرف تعلیم و تربیت کا خیال رکھے بلکہ بچوں کی نفسیات کو بھی مضبوط اور مثبت بنائے۔ استاد کے رویہ اور طریقہ کا بچوں کی نفسیات پر بہت اثر پڑتا ہے۔ جس کا تاثر تا حیات ان کی زندگیوں میں نظر آتا ہے۔ اس لئے باشعور اور ذمہ دار استاد بچوں کو مار کٹائی سے نہیں بلکہ پیار و محبت سے تعلیم دیتا ہے ۔ گلاب کے پھول کی طرح اس کو سینچتاہے ۔ اسے پروان چڑھا تا ہے۔ نہ کہ اس پر ظلم کرتا ہے۔

Link of the channel :::

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں