مادر من
صبح دم شبنم میں بھیگتی درس گاہ،سانس لیتی دیواریں جہاں کئی بولتے ہاتھوں کے عکس کندہ ہیں۔ کچھ گنگناہٹوں بھری سرگوشیاں ۔ بچوں کی معصوم ہنسی، لڑکیوں کی بھاگتی ، کھلکھلاتی ٹولیاں، مجید کے لذیذ سموسے، چچا اچھن کی چھڑی، چچا لطیف کے ذائقہ بھرے آلو اور شلجم گوشت، بہاری چچا کی بریانی اور میٹھے پکوان۔ بین الکلیاتی مقابلوں کی دھڑکتی صبحیں، دم سحر درختوں کے نیچے جائے نماز بچھا کر تلاوت کی تیاری، نعت کی مشق، عظیم الشان وسیع ہال میں اسٹیج پر کھڑے ہو کر فن تقریر کے جوہر دکھانا،ڈرامہ سوسائٹی میں شامل ہو کر لکھنا اور پھر کئی فنکاروں کا بام پر جگمگانا، خوبصورت پیراہن میں فینسی ڈریس شو، نوخیز شاعراوں کے دلفریب انداز بیاں میں مخمور جھومتی شامیں۔ ملک کے نامور مفکروں اور عظیم شخصیات سے ملاقات اور دل موہ لینے والی چاندنی راتوں میں آگ جلا کر اس حسین ہفتے کا اختتام۔
کوئین میری کے دیوہیکل دالانوں میں پرندوں کی طرح اڑانیں بھرنا، اپنے ہوسٹل کی چھت سے استادوں کی چھت پر کود کر شرارت کرنا۔ جامن کے برسات میں بھیگتے درختوں سے ٹہنی سمیت نیچے آگرنا۔
سنگ مرمر کے سفید فوارے کے کناروں پربیٹھ کر رٹے لگانا۔ ہوسٹل سے ملحقہ قبروں کے پاس تلاوت کرنا اور ان کی مغفرت کے لیے ڈھیروں دعائیں کرنا۔ برگد کے نیچے رہنے والی بلیوں کو بسکٹ کھلانا اور گھنٹوں ان سے باتیں کرنا۔ موتیا، گلاب اور ہارسنگھار کی خوشبو میں مر جانے کی حد تک ڈوب جانا۔ سردیوں کی خاموش راتوں میں سڑک پر سے گزرنے والے تانگے کی ٹک ٹک، رکشہ کی آواز، دولتانہ ہاوس کے پراسرا باغ کے پہلو میں قبرستان سے اٹھنے والی گھنگرووں کی آواز ۔
غرض یادوں کا ایک ہجوم بیکراں ہے جس نے مجھے گھیر رکھا ہے۔
آج دل ڈر رہا ہے کہ یہ سب ہمارے فرعون حکمرانوں کی دیوانگی کی نظر نہ ہو جائے۔ کسی نارنجی ریل کا راستہ ہموار کرنے کے لیے اس شاہکار میں لہلہاتے بزرگ درختوں کے سر قلم نہ کر دئیے جائیں۔ اس عروس شہر سے اس کی زندگی نہ چھین لی جائے۔ جہالت کی انتہا ہے کہ اس جیسے تاریخی جوہر کو جس نے نسلیں سنواری ہوں منہدم کر دیا جائے۔
میری حکمران بالا سے درخواست ہے کہ ہماری اس مادر علمی کی حفاظت کی جائے اور اس کو نادانوں کی چیرہ دستیوں سے بچایا جائے۔ زندہ قومیں اپنے اثاثے یوں ویراں نہیں کرتیں۔
خیر اندیش
نمیرہ محسن
مئی 2022
351
مادر من بہت اچھی تہحریر ہے بچہن یاد ا گیا