Arrival of Mian Muhammad Nawaz Sharif in Saudi 212

میاں صاحب کی “سروائیول پالیٹیکس” ، اور پاکستان

میاں صاحب کی “سروائیول پالیٹیکس” ، اور پاکستان

24/04/2023 کو سیاست اور سماجی سرگرمیوں سے منسلک کوئی درجن بھر دوست میرے غریب خانے پر تشریف لائے- نشست طعام ہو چکی تو مقصدِ آمد پر گفت و شنید شروع ہوئی۔ اگرچہ مجھے معاملے کی نوعیت و نزاکت معلوم تھی اسی جب تک اگلے مقام سے کنفرمیشن نہ آ جاتی میں نے اپنی طرف سے خاموشی اختیار کرنا ہی مناسب سمجھا۔ دوست بتانے لگے کہ آج شام میاں صاحب سے ملاقات ہے، خواہش تو میری بھی بہت زیادہ تھی مگر کچھ معاملات کے واضح ہونے کے انتظار میں ، میں نے چپ سادھے رکھی، تاکہ اگر خدانخواستہ ملاقات نہ ہو پائی تو ہزیمت اٹھانے سے محفوظ رہیں گے ۔ دن ڈھلنے لگا اور شام اترنے لگی تاہم اس دن اور تاریخ میں متعلقہ
دوست دوبارہ نہ آئے ، مجھے اپنے اندازوں کے صحیح ہونے پر ایک خوشی بھی محسوس ہوئی کیونکہ میرے زرائع مجھے بتا چکے تھے کہ آج کی تاریخ میں تو ملاقات ممکن نہیں ہے مگر میں دوستو کی خوشیوں کے بھرم کو قائم رکھنے کا خواہاں تھا اسی لیے ان کی خوشیوں میں شریک تو ہوا مگر خواہشات پر خاموشی اختیار کیے رکھی۔

اگلے دن یعنی 25/04/2023 بروز منگل پھر عین تین بجے دوپہر میرے یہ دوست مع دو درجن سیاسی کارکنان جو کہ خمیس ، مشیط ، ابہاء ، ریاض اور دمام سے آئے تھے ، میرے گھر پہنچ گئے ، میں سو رہا تھا۔مہمان خانہ میں بیٹھ کر رانا صاحب نے فون کھڑکا دیا کہ ہمارے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں اور آپ لمبی تان کر سو رہے ہیں۔ بھاگم بھاگ مطعم میں پہنچس تو برتن دھل دھلا کر الٹے پڑے ہوئے تھے ۔ زنان خانے کی طرف دوڑ لگائی، موقع بہت نازک تھا دھمکی چل نہیں سکتی تھی ۔ ایسے میں والدہ ماجدہ کو منانا ہی آسان لگا۔ انکو ماضی یاد کروایا کہ دیہات میں رہ کر بھی ایمرجنسی بنیادوں پر اتنے افراد کا طعام انتظام آنآ فانآ کر دیا کرتی تھیں ۔ اب تو بھرے شہر میں بیٹھے ہیں تو کونسا مشکل کام ہے ؟ مائیں کو جذباتی طور پر بیلک میل کرنا آسان کام ہوتا ہے ۔ اسی لیے پھر آسانی ہی آسانی ہو گی۔ الٹے برتن کھڑکھنے لگے ، کھانوں کی اشتہا انگیز خوشبوؤں سے فضاء مہک اٹھی، خوان سجنے لگے ۔ طعام و شیام اور چائے شائے کے بعد پوچھا بھائی آخر ارادہ کیا ہے؟ جواب دیا کہ آج میاں صاحب سے ضرور ملاقات ہونی ہے۔ مجھے بھی اندازہ تھا، اسی لیے مسکراتے ہوئے کاروان میں شامل ہو گیا ایک مدت کے بعد میاں صاحب سے ملاقات ہو رہی تھی ، دل کی دھڑکن معمول سے زیادہ تھی اور خوشی چہرے سے عیاں تھی۔

بہرحال اسی شام یہ وفد میاں صاحب سے ملنے ان کی رہائش گاہ پہ پہنچا- سکیورٹی کے معاملات کلئیر کر کے مرکزی ہال میں پہنچے جہاں میاں صاحب منتظر تھے۔ تو آپ تصور کر سکتے ہیں ہماری خوشی کا جو اپنے قائد کو سامنے دیکھ کر ہوئی ۔ایک گھنٹے کی اس شاندار ملاقات میں تاریخ کے کئی بند ادوار کھل کر ہماری نظروں کے سامنے آ گئے۔کہیں پڑھا تھا کہ جنوری 1972 میں جب پہلی بار شریف فیملی کو جلاوطن کیا گیا، تب بھی عرب ممالک ہی تشریف لائے تھے۔ ٹھہریے اس جلاوطنی کی وجہ جاننے کےلیے آپ کو تھوڑا مزید پیچھے جانا پڑے گا- دراصل 1965ء کی جنگ کے بعد اس دور کی فوجی قیادت نے اتفاق فونڈری کا وزٹ کر کے میاں محمد شریف مرحوم سے درخواست کی تھی کہ ٹینک و بکتر بند گاڑیوں کےلیے سپیشل قسم کی چادریں تیار کریں۔اتفاق فونڈری نے ملکی خدمت کو سعادت سمجھتے ہوئے فوجی ڈیمانڈز کے مطابق وہ چادریں تیار کرنی شروع کر دیں اور یہ سلسلہ 1971ء تک جاری رہا۔

جنگِ 71 سقوطِ ڈھاکہ پہ منتہج ہوئی اور اتفاق فونڈری کی بنگلہ دیش برانچ میاں صاحب کے ہاتھ سے نکل گئی- تب میاں مرحوم نے جنرل یحییٰ سے اپیل کی کہ انہیں بنگلہ دیش اتفاق فونڈری کا کلیم لے کر دیں نیز لاہور کی اتفاق فونڈری کے واجبات بھی کلیئر کریں جو ٹینک و بکتر بند گاڑیوں کےلیے سپیشل چادرز کی مد میں فوج پہ واجب الادا ہیں۔کلیم تو نہ ملا البتہ میاں صاحب “ادارے” کی بائیں جانب ضرور آ گئے- چنانچہ بھٹو صاحب کا دور آتے ہی تمام ملکی ملز کو قومیا لیا گیا اور یوں شریف خاندان کو جنوری 1972ء میں جلا وطن ہونا پڑا-انہی دنوں میاں محمّد شریف کو عرب امارات کے امیر نے دوبئی کی “ہل سٹیل ملز” کو فعال کرنے کا مشن سونپا جو ان کے تجربے اور ہنرمندی کی بدولت بہت جلد فعال ہو کر پروڈکشن کے قابل ہو گئی۔اسی طرح سعودی عرب کی بھی ایک اسٹیل مل جو عرصہ سے بند پڑی تھی اسے بھی انہوں نے کارآمد بنایا- یوں دو عرب ممالک اور شریف فیملی کے بیچ ایک بڑی پارٹنر شپ کا آغاز ہوا جو 8 سال تک جاری رہی۔

بھٹو صاحب کا تختہ الٹ کر جنرل ضیاءالحق نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی تو سعودیہ وزٹ کے دوران انہیں شریف خاندان کی ہنرمندی اور خدمات کی خبر ہوئی- جنرل صاحب نے میاں محمّد شریف سے ملاقات کی تو انہوں نے ان تمام معاملات سے آگاہ کیا جو پاکستان میں اتفاق فونڈریز کو پیش آئے تھے۔جنرل صاحب نے پوری روداد سن کر تحقیقات کا وعدہ کیا- کچھ ہی عرصے بعد انہوں نے شریف خاندان کو واپس پاکستان آنے اور کاروبار کرنے نیز نقصان کا ازالہ کرنے کی پیش کش کر دی۔میاں صاحب اور ان کے صاحب زادگان پاکستان تو آ گئے مگر نہ تو چین سے کاروبار کرنا نصیب ہوا نہ حکومت- جنرل ضیاء کے بعد یہ ہر آمر کے بائیں طرف ہی رہے، کبھی جیل میں ڈالے گئے تو کبھی بے بنیاد مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔جان بچانے کو ملک سے باہر گئے تو بزدلی کا طعنہ دیا گیا – اگرچہ یہ ان کا انسانی اور قانونی حق تھا ۔

آج میاں صاحب کو اپنے سامنے زندہ سلامت اور صحت مند موجود پا کر سوچ رہا ہوں کہ انہوں نے ناسازگار حالات میں ملک چھوڑ کر کتنا اچھا فیصلہ کیا ورنہ آج وہ بھی کُنجِ مزار میں پاؤں پسارے سو رہے ہوتے-میاں صاحب کی اس پالیسی کو میں “سروائیول پالیٹیکس” کہتا ہوں۔ یہ ایک فرد کا ہی نہیں اس بدقسمت ملک کی معیشت کا بھی سروائیول ہے جسے گزشتہ حکومت نے آئی سی یو میں پہنچایا اور موجودہ حکومت دوبارہ فعال کرنے میں لگی ہوئی ہے وہ بھی اپنی پوری سیاسی ساکھ کو داؤ پر لگا کر۔ صحیح معنوں میں مسلم لیگ ن اپنے سیاسی اثاثوں سے پیچھے ہٹ گئی ہے مگر ہمیشہ کی طرح اس بات بھی ریاست کو سیاست پر ترجیح دی گئی ہے ۔
یہ جان کر آج کتنا اچھا لگ رہا ہے کہ حکومت پاکستان نے اس مالی سال میں ابھی تک غیر ملکی قرضوں اور اس پر سود کی مد میں 10 ارب ڈالرز ادا کر دیے ہیں- پرائیویٹ بینکوں کے پیسے ملا کر اس وقت ملک میں 11 ارب ڈالر کا ریزرو محفوظ ہے اور اب پاکستان کو آئی ایم ایف سے پروگرام بھی نہیں چاہیے۔

یہ امر کتنا قابلِ اطمنان ہے کہ پاکستان اب روس چائنا بلاک کا حصہ بننے جا رہا ہے۔اس سلسلے میں کسی بھی قسم کا اندرونی یا بیرونی پریشر خاطر میں نہیں لایا جا رہا۔یہ بھی شنید ہے کہ ریجنل بلاک کے ممالک سے تجارت اب ڈالر کی بجائے مقامی کرنسی میں ہو گی اور بہت جلد بھارت سے بھی تجارتی تعلقات بحال ہونے والے ہیں- نیز شرپسند عناصر کے ساتھ سختی سے نمٹنے کا بھی پروگرام ہے-ایک گھنٹے کی ملاقات میں میاں صاحب نے امید کے کئی چراغ ہم میں جلا دئیے ہین- ایک متوازن اور طاقت ور پاکستان کی وہ تصویر دکھا دی ہے جو ہم سب کا خواب ہے۔ بلاشبہ اس ملک کو کل بھی میاں صاحب کی ضرورت تھی آج بھی ہے اور کل بھی رہے گی-

عبدالخالق لک جنرل سیکریٹری مسلم لیگ ن

جدہ سعودی عربیہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں