کالم نویس/اعجاز احمد طاہر اعوان
موسم سرما کے ساتھ ہی آتے اور ٹھنڈ کی آمد کے ساتھ ہی متوسط خاندان سے تعلق رکھنے والے خاندان افراد گرم کپڑوں کی خریداری کے لئے “لنڈا بازاروں ” کا تخ کر لیتے ہیں، جہاں کبھی لنڈا بازار ہر فرد کی پہنچ اور ضرورت کس مرکز ہوتا تھا، مگر اب یہ سستا بازار بھی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو گیا ہے، اس سے بیشتر ” لنڈا بازار ” سے خریداری کرنا ہر شخص کے بس اور باآسانی پہنچ تھی مگر اب “لنڈا بازار” سے مہنگے داموں استعمال شدہ کپڑوں کی خریداری دن بدن پیچیدہ اور مشکل ترین ہوتا جا رہا ہے.
“لنڈا بازار” سے اس وقت گرم کپڑوں کی خریداری غریبوں کے لئے بہت آسان مرکز تصور کیا جاتا تھا اور بہت ہی آسانی دے بچوں اور بڑوں کے لئے 100 روپے تک باآسانی کپڑے دستیاب ہو جاتے تھے مگر اب یہ تصور انتہائی پیچیدہ اور مشکل ترین ہو کر رہ گیا ہے
“لنڈا بازار” کے کاروبار سے منسلک افراد کا کہنا ہے کہ اس سے بیشتر بیرون ممالک سے آنے والے کپڑے اننتہائی سستے اور خریداری کے دائرہ اختیار میں ہوتے تھے مگر اب ہر آنے والا دن پیچیدگیوں کی دلدل میں پھنس گیا ہے، غریب شخص کا سردی سے بچنے کو وقت مسائل کی دلدل اور مشکلات کی بھنور میں پھرتا جا رہا ہے.
“لنڈا بازار” سے سستے کپڑوں کی خریداری کا تصور بھی ایک پیچیدہ اور سنگین مسلہ بنتا جا رہا ہے
“لنڈا بازار” سے کپڑوں کی خریداری کا اب سوچنا بھی غریب کے لئے سردی سے قبل ہی الجھاو کی نظر ہو کر رہ جاتا ہے، اب ایک جیکٹ اور کوٹ کو خریدنے کے لئے بھی جیب میں 4 سے 5 سو روپے ہونا ضروری ہو گیا ہے، اور صرف بچوں کی خریداری کے لئے 200 سے 300 روپے کا بجٹ کا ہونا ضروری ہو گیا ہے، “لنڈا بازار” سے کپڑوں کو خریدنا بھی پہلے کی نسبت اچھا خاصا کٹھن ہو گیا ہے، اور اکثر کپڑوں کی گھاٹوں کے اندر سے بیکار اور خستہ حالت میں کپڑے نکلتے ہیں اور اکثر جو مال خریداروں سے خریدا جاتا ہے وہ ناقابل واپسی ہوتا ہے، آج کل استعمال شدہ کپڑوں کا کاروبار کرنے والے بھی ایمانداری دے کوسوں دور چلے گئے ہیں اور دیانتداری اور ایمانداری کا صرف کھوکھلا تصور ہی باقی رہ گیا ہے، اگر بیرون ممالک سے استعمال کتنے والے کاروباری مسلمان ہونے کس کلمہ پڑھ لیتے تو اس سے زیادہ کوئی مسلمان نہ ہوتا مگر ایسا ممکن کہیں بھی تو نظر نہی آتا،
حکومت پاکدتان کس چاہیئے کہ “لنڈا بازار” دے منسلک ایسے افراد کو کاروبار کے لئے آشا شرائط پر آشا سہولتوں کے ساتھ قرضہ کی فراہمی کو یقینی بنائے تاکہ غربت کے مارے یہ افراد بھی اپنے بچوں کے ساتھ مل کر سکوں کی زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں.