لوڈشیڈنگ سیاسی، کرپشن کا مسئلہ ھے
محمد امانت اللہ
دنیا میں بجلی پیدا کرنے کے بہت سے ذرائع موجود ہیں، ہمارے ملک میں پانچ مختلف طریقوں سے بجلی پیدا کی جا رہی ھے۔
فرنس آئل، گیس، ایل این جی ، نیوکلیئر، اور پن بجلی یعنی ڈیم بنا کر پیداوار حاصل کی جاتی ھے۔
سب سے سستی بجلی آبی ذخائر سے حاصل ہوتی ھے۔
پاکستان میں دو بڑے ڈیم ہیں جو اس وقت بجلی پیدا کرتے ہیں۔ تربیلا اور منگلا ڈیم۔
دونوں ڈیم پچاس سال پرانے ہیں۔
بد قسمتی سے جو بھی حکومتیں آئیں انہوں سے ڈیم بنانے اور بجلی کی پیداوار حاصل کرنے میں کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔
کچھ سیاسی پارٹیاں ہمیشہ ڈیم بنانے کی مخالفت کرتی رہی ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلزپارٹی نے بھی مخالفت کی جلسے جلوس نکالے یہ کہہ کر سندھ بجنر ہو جائے گا۔
درحقیقت ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مخالفت کی گئی آج یہ حالت ھے بجلی کی پیداوار تو دور کی بات ملک میں پانی کا شدید بحران سر اٹھا رہا ھے۔
بارشوں کا پانی جو سیلابی صورت اختیار کر لیتا ھے، پورے ملک میں تباہی مچانے کے بعد دریا سندھ سے ہوتا ہوا سمندر میں چلا جاتا ھے۔
لاکھوں کیوسک پانی ہر سال ہم لوگ ضائع کر دیتے ہیں۔
پرویز مشرف کے دور حکومت میں چند ڈیم بنائے گئے جو صرف پانی ذخیرہ کرنے کے کام آئے۔
پیپلزپارٹی پارٹی کی حکومت آئی انہوں نے بجلی کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے غیرملکی سرمایہ داروں سے کہا آپ پاور پلانٹ لگائیں ہم آپ سے بجلی خریدیں گے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا حکومت خود پاور پلانٹ لگاتی مگر ایسا نہیں کیا گیا۔
نواز شریف کے دور حکومت میں بہت سے پاور پلانٹ لگائے گے پرائیویٹ سیکٹر میں۔
افسوسناک یہ ھے جو ان کمپنیوں سے معاہدے کیے گئے اس سے ملک کو نا تلافی نقصان پہنچا۔
کمیشن اور کیک بیک وصول کیے گئے اور رقم کی ادائیگی ڈالروں میں کیے جانے کے معاہدے کیے گئے۔
بجلی کی پیداواری قیمت سے کہیں زیادہ کے معاہدے ہوئے۔ سب سے حیران کن بات یہ تھی پیداواری صلاحیت پر رقوم کی ادائیگی ہوگی نہ کے پیداوار پر۔
ملکی خزانہ پر بھاری بوجھ آج تک پڑ رہا ھے۔
ملک میں اکثر کمپنیوں کے مالکان سیاسی اثر رسوخ رکھتے ہیں اور ان میں سے اکثر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران بھی ہیں۔
جو کمپنیاں بجلی پیدا کر رہی ہیں انکی مجموعی تعداد 42 ہیں۔
چند مشہور کمپنیاں درجہ ذیل ہیں۔
حب پاور کمپنی
حیسکو پاور کمپنی
اسلام آباد الیکٹرک کمپنی
ملتان الیکٹرک کمپنی
نشات پاور کمپنی
سیف پاور کمپنی
جیپکو پاور کمپنی
کوٹ ادو پاور کمپنی
گل احمد پاور کمپنی
لکی پاور کمپنی
لیبڑٹی اور صبا پاور کمپنیاں شامل ہیں۔
یہ ساری کمپنیاں گیس اور فرنس آئل سے بجلی پیدا کر رہی ہیں۔
اعداد شمار کے مطابق پچھلے پانچ سالوں میں ان کمپنیوں نے 30 فیصد اضافی منافع کمایا ھے۔
ڈالروں کی صورت میں یہ منافع پاکستان سے باہر لے گئے ہیں جس سے ذر مبادلہ کے ذخائر کو نا تلافی نقصان پہنچا ھے۔
بجلی پیداواری صلاحیت کچھ اس طرح سے ہیں جو ملکی ضروریات کو پورا کر رہی ہیں۔
نیوکلیئر سے 7 فیصد
گیس سے 11 فیصد
ایل این جی سے 21 فیصد
تیل سے 5 فیصد
کوئلہ سے 20 فیصد
پن بجلی سے 33 فیصد
باقی کے تین فیصد مختلف طریقوں سے حاصل کی جاتی ہیں۔
ملکی وسائل اور پاور کمپنیاں 40 ہزار میگاواٹ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں جبکہ ہماری ضروریات سے زیادہ ہیں۔
کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ کوئی بھی حکومت اقتدار میں آ جائے وہ بجلی کے مسئلے کو اس وقت تک حل نہیں کر سکتی جب تک وہ مختلف عالمی کارپوریشن سے کیے گئے معاہدوں کو یا تو منسوخ نہ کردے یا پھر ان کو اس طرح تبدیل کرے کہ اس سے پاکستان کو فائدہ ہوسکے۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے انرجی کے ماہر حسن عباس کا کہنا ہے کہ ماضی میں ہم نے طویل المدت کے معاہدے کیے ہیں اور اب بین الاقوامی قانون کے مطابق ان معاہدوں کی پاسداری ہم پر لازم ہے۔
اگر ہم معاہدوں کی خلاف ورزی کریں گے تو جس طرح ریکوڈک کے پروجیکٹ میں ہم پر جرمانہ لگا ہے، اسی طرح ہم پر جرمانہ لگ سکتا ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ہم نے بہت سارے پلانٹس ایسے لگائے ہیں، جو امپورٹڈ تیل پر ہیں اور جب امپورٹڈ تیل کی قیمت بڑھتی ہے تو ہمارا امپورٹ بل بڑھ جاتا ہے۔
حکومت اس بات کی پابند ہے کہ وہ آئی پی پیز کو ایندھن فراہم کرے اور معاہدے کی شقیں ایسی ہیں کہ چاہے یہ آئی پی پیز بجلی پیدا کریں یا نہ کریں ان کو ایک معین مدت تک ایک مختص رقم کی ادائیگی لازمی ہوتی رہے گی۔
جب معاشی مشکلات کی وجہ سے حکومت یہ رقم نہیں دے پاتی، تو وہ بجلی پیدا کرنا بند کر دیتے ہیں، جس سے یہ پورا بحران پیدا ہوجاتا ہے۔
عالمی مالیاتی ادارے سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر نے سرکاری اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا،
پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کے دو نظام ہیں، جس میں ایک پورے پاکستان کے لیے ہے اور دوسرا کے الیکٹرک کے لیے ہے۔
پورے پاکستان کا جو نظام ہے اس کی پیداواری صلاحیت 36 ہزار 900 میگاواٹ ہے جبکہ کے الیکٹرک کی صلاحیت دو ہزار آٹھ سو اکتیس میگا واٹس ہے۔
ملک کی مجموعی پیداواری صلاحیت تقریباﹰ 40 ہزار میگاواٹ ہے لیکن چار ہزار میگا واٹ اس لیے سر پلس ہے کیونکہ جی ڈی پی گروتھ میں کمی ہوئی ہے۔
اتنی بڑی تعداد میں پاور پروجیکٹس اس لیے لگائے گئے تھے کیونکہ جی ڈی پی گروتھ کے بڑھنے کے امکانات تھے۔
پی ٹی آئی کی حکومت نے صنعتی اداروں اور کسانوں کو سبسیڈی دے کر جی ڈی پی میں اضافہ کیا۔
امپورٹڈ حکومت نے بجلی کی قیمت میں اضافہ کر کے ملکی معیشت کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ھے۔
رواں مالی سال کے آخری چھ ماہ میں جی ڈی پی کی رفتار سست روی کا شکار رہے گی۔
جس کا اثر مہنگائی اور بے روزگاری کی صورت میں نظر آئے گا اگلے چند ہفتوں میں۔
واضح رہے کہ پاکستان میں لوڈ شیڈنگ ایک سیاسی مسئلہ بھی ہے۔ سن 2013 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی شکست کی وجہ لوڈشیڈنگ تھی۔ اسی سال جب ن لیگ کی حکومت آئی تو اس نے ترجیحی بنیادوں پر لوڈشیڈنگ کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی۔
تاہم نون لیگ کی حکومت نے جلدی میں ایسے پاور پروجیکٹس شروع کیے، جو بہت مہنگے تھے یا ان کو درآمد کردہ تیل پر رکھا گیا۔ اور جب عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں بڑھیں تو ان کو درآمد کرنا مشکل ہوگیا، جس کی وجہ سے پاور پلانٹس صلاحیت رکھنے کے باوجود بھی بجلی پیدا نہیں کر سکے ہیں۔
آج ملک میں یہی صورتحال ھے ہم ان کمپنیوں کو تیل فراہم کرنے سے قاصر ہیں، جبکہ معاہدے کے تحت انکو پیداواری صلاحیت پر ادائیگی کی
جائے گی۔
پیداوار کم ہونے سے ملکی معیشت کو جہاں نقصان پہنچ رہا ھے وہیں دوسری طرف ادائیگی بھی پوری کی جائے گی۔
ایسا سیاسی معاہدہ جس سے ملک کو ہر حال میں نقصان پہنچ رہا ھے۔
پی ٹی آئی کی حکومت نے چند کمپنیوں سے نیا معاہدہ کیا ھے جس سے بجلی کے نرخوں میں خاطرخواہ کمی واقع ہوا ھے مگر یہ آٹے میں نمک کے برابر ھے۔
درحقیقت لوڈشیڈنگ سیاسی اور کرپشن کا مسئلہ ھے، جس کا خمیازہ پوری کو بھگتنا پڑ رہا ھے۔
256