KhalilThe Gentleman 145

خلیل۔دی جنٹلمین (تحریر۔ جویریہ اسد‎)

خلیل۔دی جنٹلمین
تحریر۔ جویریہ اسد‎

میں نے “میرے پاس تم ہو” کی پہلی قسط غیر ارادی طور پر اس وقت دیکھی تھی جب میں خلیل الرحمان قمر سے بطور ڈرامہ نگار متعارف نہیں تھی۔ مجھے اس ڈرامے کا سکرپٹ اور فنکاروں کی مکالمے کی ادائیگی عام پاکستانی ڈراموں کے مقابلے میں بہت مختلف اور دلچسپ لگی۔ یہ ایک اچھی سیریل تھی، اور اس کے بعد کسی نے مجھے “پیارے افضل” دیکھنے کا مشورہ دیا۔ ان دونوں ڈراموں میں مجھے کچھ یکسانیت نظر آئ جو کہ خواتین کے کرداروں کو نا مناسب اور قابل مذمت رنگ دے رہی تھی۔

‎اس دوران، میں نے خلیل صاحب کی گفتگو اور ان کی خواتین پر مبنی موضوعات پر تقاریر کا جائزہ لیا۔ بظاہر وہ معاشرے میں خواتین کی اہمیت اور بچوں کی تربیت میں ان کے تعمیری کردار کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن بطور سامع میں اپنے آپ کو مطمئن نہیں کر پائ کہ وہ واقعی اس جنس کے حمایتی ہیں۔ ان کے خیالات کا اظہار بعض اوقات توہین آمیز اور ذلت آمیز لگااور مجھےذاتی طور پر بحیثّیت عورت پسند نہیں آیا۔

‎ان دونوں ڈراموں میں، انہوں نے خواتین کو مردوں کے جذبات کے ساتھ کھیلتے ہوئے دکھایا ہے، جو آسانی سے ان کی باتوں اور شخصیتوں کے گرویدہ بن جاتے ہیں۔ ان کے سکرپٹس خواتین کے گرد گھومتے ہیں جو محبت کے تعلقات کے بارے میں کافی الجھی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ “میرے پاس تم ہو” میں، انہوں نے شہوار احمد (عدنان صدیقی) کو اپنی بیوی سے بےوفائ کا اور اس رشتے کے ٹوٹنے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے مہوش (عائزہ خان) کو تمام نقصانات کی واحد مجرم بنایا۔

‎دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے “پیارے افضل” میں بھی ایک مشابہہ پلاٹ استعمال کیا تھا، جہاں لبنا(عائزہ خان) ایک مناسب رشتہ تلاش کر رہی تھی جبکہ وہ کسی نامعلوم شخص کو خط لکھ رہی تھی۔ بعد میں افضل (حمزہ علی عباسی) لبنا اور یاسمین (سوھا علی ابرو) کے درمیان الجھ جاتا ہے۔

اپنے حالیہ ڈرامے جینٹلمین میں بھی، تین طاقتور مرد ایک عورت کی محبت کے گرد گھوم رہے ہیں۔ فاریس ،اسسٹنٹ کمشنر (زاحد احمد) کو ایک موقع پرست اور بدعنوان افسر کے طور پر دکھایا گیا ہے جو دونوں خواتین کو دھوکہ دے رہا ہے، لیکن خلیل صاحب آسانی سے یہ بوجھ مفراح پر ڈال دیتے ہیں کہ اس نے فاریس کو گمراہ کیا۔

‎ہر سکرپٹ میں، خلیل صاحب خواتین کو کمزور اور مکار کے طور پر پیش کرتے ہیں جو دوسرے جنس کا استحصال کرتی ہیں۔ لوگ انہیں ڈرامہ انڈسٹری کا سپر اسٹار مانتے ہیں، جو ہٹس اور اعلیٰ ٹی آر پیز دیتا ہے، لیکن میں ان لوگوں سے پوچھوں گی کہ ان ڈراموں کو ہٹ کس نے بنایا؟ یہ آپ اور میرے جیسے لوگ ہیں جنہوں نے چاہت علی خان کو راتوں رات وائرل کر دیا۔ کیا ہم واقعی معنی خیز مواد کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ ہر گز نہیں۔ ہم بہت عام سے لوگ ہیں اور چونکہ ہم ایک ایسے معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں مردوں کو غلبہ حاصل ہے، اس لیے ہم فطری طور پر خواتین کو اس قسم کے کرداروں میں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔

میں خلیل صاحب کے حالیہ تنازعہ کی شدید مذمت کرتی ہوں مگرمیری عقل یہ سمجھنےسے قاصر ہے،کہ وہ غیر مناسب وقت پر اس انجان لڑکی کے گھر کیوں گئے؟ انہوں نے ڈاکٹر کی ہدایت کا بہانہ بنا کر سورج کی روشنی سے بچنے کا مضحکہ خیز دعویٰ کیا اور اپنے آپ کو بے قصور ثابت کرنے کی کوشش کی۔ مجھے اس لڑکی کی نیت کے بارے میں علم نہیں ہے، لیکن ایک ذمہ دار اور نام نہاد حساس مصنف ہونے کے ناطے، انہیں وہاں نہیں جانا چاہیے تھا۔ آخر میں، وہ ممکنہ طور پر لڑکی کو ہی رات دیر تک بلانے کا الزام دیں گے، اور جلد ہی ہم ایک نیا سکرپٹ دیکھیں گے جس میں مختلف کرداروں کے ساتھ اس کہانی کو اجاگر کیا جائے گا۔

‎میں اپنی سوچ اور ناقص عقل کے تجزیہ کے مطابق صرف یہی نتیجہ اخذ کر پائ ہوں جس سے قارئین یقینی طور پراختلاف کرسکتے ہیں کہ خلیل صاحب خواتین کے بارے میں جنونی ہیں اور ان کے پاس عزت اور اخلاقیات کی کمی ہے۔ وہ معاشرتی اور ثقافتی نقصانات کا تمام بوجھ خواتین پر ڈال دیتے ہیں اور دوسرے جنس کو سب سے زیادہ کمزور بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ان کے کسی بھی سکرپٹ میں پاکستان کے کسی بھی سماجی مسئلے پر بات نہیں کی گئی ہے۔ ان کی تحریریں صرف محبت اور خواتین کے گرد گھومتی ہیں اور انہیں معاشرے کا بدصورت حصہ بناتی ہیں۔ میں ان سے گزارش کرتی ہوں کہ اپنی ادبی دانشمندی کا استعمال کرتے ہوئے معاشرے میں مثبت تبدیلی لائیں، ورنہ اس قسم کے واقعات جاری رہیں گے جو اس نام نہاد شریف جنٹلمین کو بے نقاب کرتے رہیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں