ملک میں انارکی کیوں؟ شور نہیں شعور قسط اکہتر ڈاکٹر زین اللہ خٹک 290

ہوشربا مہنگائی اور عوامی اشتعال ڈاکٹر زین اللہ خٹک

ہوشربا مہنگائی اور عوامی اشتعال
ڈاکٹر زین اللہ خٹک
10 اپریل کو ملکی پارلیمنٹ میں مداخلت کرکے جس طریقے سے عوامی منتخب حکومت کا خاتمہ کردیا گیا۔ جس طریقے سے جمہوریت کا مذاق اڑایا گیا۔ جس طرح قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو کالعدم قرار دے کر عدالت سے ضمانت یافتہ ملزموں کو ملک پر مسلط کیا گیا۔ وہ ملکی تاریخ کا سیاہ ترین باب بن چکا ہے۔ گزشتہ دو مہینوں سے امپورٹڈ حکومت جس طریقے سے ملک کو چلارہی ہیں۔ ایک طرف نیب کے قوانین کو تبدیل کیا گیا۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کے قانونی حق سے محروم رکھا گیا۔ ایک طرح پنجاب میں صوبائی حکومت کو طاقت کے بل بوتے پر مسلط کیا گیا۔ تو دوسری طرف دو مہینوں میں 60 روپے لیڑ تیل کی قیمتیں بڑھادی۔ 9 روپے بجلی کی ایک یونٹ کا اضافہ کردیا، ادویات کی قیمتوں میں ریکارڈ 30 فیصد اضافہ کیا گیا۔ گیس کی قیمتوں میں 45 روپے اضافہ کیا گیا۔ سبزیوں کی قیمتیں آسمان کو چو رہی ہے۔ کوکنگ آئل ایک لیٹر 600 روپے کے بارڈر کو کراس کرگیا ہے۔ بچوں کے پیمپر میں 250 روپے اضافہ، بچوں کے دودھ میں 500 روپے اضافہ، دودھ 100 سے 160 روپے، دھی 120 سے 180 روپے، الغرض ہر چیز کی قیمتیں کئی گناہ زیادہ بڑھ چکی ہے۔ اسوقت نہ تو کورونا کی وبا موجود ہے۔ اور نہ دنیا میں تیل کی قیمتیں بڑھ گئی ہے۔ نہ کوئی اور ایمرجنسی نافذ ہے۔ اس کے باوجود ملک میں مہنگائی کا طوفان سمجھ سے بالاتر ہے۔ آئی ایم ایف کی غلامی مانی گئی۔ آئی ایم ایف کے تمام مطالبات مانے گئے۔ عملاً ہماری آکسیجن آئی ایم ایف ہے۔ موجودہ مسلط شدہ حکمرانوں نے ملک کا یہ حال کردیا ۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے ہم آئی ایم ایف کے چنگل سے نہیں نکل سکے۔ ملک کو عملاً امریکی کالونی بنادیا گیا ہے۔ ملک میں عوام بھوک سے مررہی ہے۔ لیکن امریکہ بہادر کی خوشنودی کی خاطر یوکرین کی مدد کی جارہی ہے۔ انسانیت اپنی جگہ لیکن اس کی مثال یوں ہے۔ جس طرح بندہ مردے کے سرہانے بیٹھ کر پراٹھے مانگے۔ یہ صرف امریکہ بہادر کی غلامی کی وجہِ سے کررہے ہیں۔ آئی ایم ایف کی غلامی میں حد سے تجاوز کر گئے۔ ہر شعبہ ہائے زندگی اس مہنگائی سے متاثر ہے۔ اس کا براہ راست اثر عام لوگوں پر پڑھ رہا ہے۔ عوامی اشتعال میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ کیوں کہ عوام جانتی ہے کہ کس طرح ایک منتخب حکومت کو معاشی ترقی کی پیڑی سے اتار کر ان کی جگہ ضمانت یافتہ مجرموں کو عوام پر مسلط کیا گیا ۔ کس طریقے سے عوامی مینڈیٹ کو پامال کیا گیا۔ کس طریقے سے عوامی مارچ پر یرغال کیا گیا۔ کس طریقے سے عوام سے بنیادی حقوق چھیننے کی وارداتیں ہورہی ہے۔ کس طرح فاشسٹ حکومت بچوں اور عورتوں پر ظلم ڈھا رہے ہیں۔ کس طریقے سے ملک میں مہنگائی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ کس طریقے سے ملک اور ملکی دفاع کو کمزور بنایا جارہا ہے۔ کس طریقے سے ملکی اداروں میں افراتفری پھیلائی جارہی ہےاس قومی اشتعال کا ایک مظاہرہ کل رات کراچی کے ایک پیڑول پمپ پر عوامی حملے کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے۔ عوام ذہنی طور پر بغاوت کے لیے تیار ہیں۔ قیمتوں پر بازاروں، پبلک ٹرانسپورٹ میں لڑائیاں روزمرہ کا معمول بن چکی ہے۔ پاکستان کی مثال جلتے ہوئے انگاروں کی مانند ہے۔ جو کسی بھی وقت بھڑک سکتے ہیں۔ یہ تو شروعات ہے۔ حالات روز بروز بگڑتے جارہے ہے۔ اگر بروقت ان حالات کو کنٹرول نہیں کیا گیا تو سری لنکا جیسے حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے۔ کہ فوری طور پر اسمبلیوں کو تحلیل کرکے عام انتخابات کا اعلان کیا جائے۔ لیکن انتخابات میں شفافیت ضروری ہے۔ ورنہ عوامی اشتعال اور غصے کو کنٹرول نہیں کیا جاسکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں