خواہشات کے تعاقب میں 166

خواہشات کے تعاقب میں

تحریر دست علی مہمند سبجیکٹ سپیشلسٹ . پی این پی نیوز ایچ ڈی

سورۃ الذاریات میں انسانی تخلیق کے مقصد کے متعلق ارشاد ربانی ہے: ’’ اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘
علامہ ابن کثیرؒ ’’تفسیر مظہری‘‘ میں اس آیۂ مبارکہ کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’ میں نے جنوں اور انسانوں کو اپنی کسی ضرورت کے لیے پیدا نہیں کیا، بلکہ صرف اس لیے کہ ان کے نفع کے لیے اپنی عبادت کا حکم دوں، وہ خوشی ناخوشی میرے معبود ِ برحق ہونے کا اقرار کریں، مجھے پہچانیں۔‘‘.
اسی ضمن میں ایک حدیث قدسی ہے، مفہوم : ’’ اے ابنِ آدم! میری عبادت کے لیے فارغ ہوجا، مَیں تیرا سینہ استغناء سے بھر دوں گا۔ اور تیری فقیری روک دوں گا۔ اور اگر تُونے ایسا نہ کیا تو مَیں تیرے سینے کو اشغال سے بھر دوں گا اور تیری فقیری کو ہرگز بند نہ کروں گا۔‘‘ (مسند احمد، ترمذی، ابنِ ماجہ)

ناظرین اس دنیا میں رہنے والا ہر بد کردار انسان خواہ کسی بھی مذھب کا پیروکار ہو یا کوئی Atheist ہو کی یہ شدید خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد اس کی طرح بد کردار نہ ہو جس یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں برائی کے لیے کوئی گنجائش نہیں رکھی ہے۔
جب انسان اپنی فطرت کے خلاف کوئی قدم اٹھاتا ہےتو پھر ایک مہذب معاشرہ اسے قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا ہے اور اس کا موازنہ کائنات میں موجود ایسی چیزوں سے کیا جاتا ہے جن کی معاشرے میں کوئی قدر وقیمت نہیں ہوتی. جب انسان خواہشات کے گھوڑے پر سوار ہو کر لالچ اور حرص کے پیچھے دوڑتا رہتا ہے تو پھر اس کا تشبیع کتوں جیسی مخلوق سے کیا جاتا ہے کیونکہ اس قسم کی برے عادات اکثر کتوں میں پائی جاتیں ہیں. اگر سچ پوچھیے تو کتے بھی اس بات سے خاصے نالاں دکھائی دیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ارے بابا ہماری بھی کوئی عزت ہونی چاہیے۔ کرے کون اور سہے کون ؟

انسانوں کی طعنوں سے تنگ اکر ایک کتے کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ کیوں نہ سارے کتوں کو جمع کر کے اس مسئلے کا مستقل حل تلاش کیا جائے چند دوستوں سے مشاورت کرنے کے بعد علاقے کے تمام کتوں کا ایک خصوصی اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا۔ سیکورٹی کے انتظامات السیشن کتوں ، سٹیج سیکرٹری کے ایک شکاری کتے ، مہمان خصوصی کے لیے بل ڈاگ (Bull Dog) اور صدر مجلس کے لیے ایک ایسے کتے کا نام تجویز کیا گیا جو کہ مکھیوں کے شرارت سے تنگ اکر ایک کونے میں چپ سادھ کر بیٹھا تھا بڑھاپے کی وجہ سے جسم پر بال نہ ہونے کے برابر تھیں۔ دوسرے کتوں کی کاٹنے سے بچارے کے کانوں میں کیڑے بھی پڑگئے پروگرام کا اغاز کتوں کے حقوق سے متعلق ایک نظم سے ہوا. جو کہ ایک پپی (Puppy) کتے نے پیش کیا۔ مقررین نے انسانوں کی اس طرز عمل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا.
آخر میں مہمان خصوصی کو شرکاء سے خطاب کرنے کی دعوت دی گئی موصوف نےاس شعر سے اپنی تقریر کا آغاز کیا،

انداز بیان گرچہ میرا شوخ نہیں ہے
شاید کہ تیری دل میں اتر جائے میری بات

موصوف نے اپنے خطاب میں کہا ساتھیو جیسا کہ آپ سب کو معلوم ہے کہ پچھلے کئی مہینوں سے طبیعت ناساز ہے، بلڈ پریشر کے اُتار چڑھاؤ سے کافی پریشان ہوں۔ ڈاکٹر نے زیادہ بولنے سے منع کیا ہے لیکن یہ ہمارا مشترکہ ایشو ہے۔ ہمارے بچوں کے مستقبل کا سوال ہے اس لیے بیمار ہونے کےباوجود بھی پروگرام میں شریک ھونا پڑا۔

عزیز ساتھیو! میں اس بات پر حیران ہوں کہ اپنی بات کہا سے شروع کروں؟ کس کس ظلم اور ناانصافی کا رونا رؤں مسائل بہت زیادہ ہیں اور ہم بے بس ہیں۔ معاشرے میں ہمیں وہ مقام نہیں دیا جا رہا ہے جس کے لیے ہم کئی برسوں سے بھونگتے چلے آرہے ہیں. تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ہمیں جس طبقے نےسب سے زیادہ تنگ کر رکھا ہے وہ انسانوں ہی کا طبقہ ہے جو کہ بڑے فخر سے اپنے آپ کو اشرف المخلوقات بھی کہتے ہیں ۔ آخراس ستم ظریفی کا کیا کہیے کہ اُن کی آپس کے چپقلشوں کا نزلہ بھی ہمارے اوپر گرایا جاتا ہے انسان تو خود پیار و محبت کا داعی ہے اُن کی اپنی زندگی تو شعر و شاعری اور محبت کے کہانیوں سے بھری پڑی ہے لیکن اگر ہم کہیں غلطی سے گلیوں کوچوں یا کھیتوں میں پیار و محبت کا مظاہرہ کرنے کی کوئی معمولی سی حرکت بھی کرلیں ، تو ان کا نوجوان طبقہ اللہ تعالیٰ ان کو ھدایت دیں ، پتھر مارنےاور ڈنڈے برسانے سے کم کسی اور بات پر مطمئن نہیں ہوتا۔ صاحب علم اور دانشور طبقے نے بھی اگر کبھی ہمارے متعلق قلم اٹھا کر کچھ لکھنے کی جسارت کی ہے تو کچھ اس انداز سے یاد فرمایا ہے Barking dogs seldom bite ، “اگر کسی نے ہمارے ملک کومیلی انکھ سے دیکھنے کی کوشش کی تو کتے کے موت مار دیں گے” “کاروان چلتا رہا اور کتے بھونگتے رہیں” اور یہاں تک کہ اپنے درسی کتب میں بھی “لالچی کتے” کے نام سے کہانی شامل کرکے ہماری خوب جگ ہنسائی کوئی کسر نہیں چھوڑی.

اگر کبھی سیاسی پارٹیوں کے قائدین کے ساتھ سلفی بنانے کا موقع مل جاتا ہے تو جماعت اسلامی والے آسمان سر پر اٹھاتے ہیں. اور اگلے دن ملک کے لیڈنگ اخبارات میں یہ سرخیاں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ “امیروں کے کتے محلات میں بیٹھ کر مزے مزے کے کھانے کھاتے ہیں اور انسانوں کے بچے کچرے کے ڈیروں میں رزق تلاش کرتے ہیں” حالانکہ ہمارے بچوں نے ساری عمر کچرے کے ڈیروں میں رزق تلاش کرتے ہوئے زندگی گزاری لیکن مجال ہے کہ الخدمت فاؤنڈیشن کے علاؤہ کسی نے ہمارے دلجوئی کے لے کوئی لفظ زبان پہ لایا ہو۔ انسانی تاریخ میں صرف ایک ہستی ایسی گزری ہے جس نے ہمارے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے کہا تھا کہ “اگر دریائے دجلہ کے کنارے کوئی کتا پیاس کی وجہ سے مر گیا تو اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دونگا”۔

میرے ساتھیو! اگر سچ مچ انسانوں کے شر اور طعنوں سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہو تو میرے خیال میں اس کے صرف دو ممکنہ حل موجود ہیں۔ ایک یہ کہ ہم لالچ اور حرص کی عادات چھوڑ دیں . جو کہ ہم میں سے کسی کی بس کی بات نہیں کیونکہ یہ ہماری فطرت کے خلاف ہے دوسرا یہ کہ جو خصلتیں ہمارے اندر موجود ہیں وہ کس طرح انسانوں کے اندر پیدا کی جائیں ۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے ہمیں ابلیس سے مشورہ کرنا ہوگا. کیونکہ “دشمن کا دشمن میرا دوست والی بات ہے” وہ لوگ اس معاملے میں ہماری ضرور مدد فرمائے گااور یاد رکھیں کہ اگر ہم ان مقاصد میں کامیاب ہو گئے تو پھر اس قسم کی اقوال، تشبیہات اور کنایات کا نشانہ ہم نہیں بلکہ انسان خود ہی ہوں گے۔

ابلیس سے ملنے کے لیے چار رکنی کمیٹی تشکیل دے دی گئی جس پر ایک جذباتی کتے نے یہ نعرہ لگایا “قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں” ۔اخر میں کتوں کے مسائل کے حوالے سے ایک قرارداد بھی پیش ہوئی جو متفقہ طور پر منظور ہوئی۔ جلسے کے احتتام پر شرکاء جلسہ دم ہلاتے ہوئے اپنے اپنے کوچوں اور بازاروں کی طرف روانہ ہوئے۔

اگلے دن ارکان کمیٹی کا ابلیس سے ان کے رہائش گاہ پر ملاقات ہوئی اور انہیں اپنے مسائل سے آگاہ کیا۔ ابلیس نے انہیں ہر قسم کے تعاون کا یقین دلاتے ہوئے کہا کہ ہمارے چند لوگ پہلے سے اس پر اجیکٹ پر کام کر رہے ہیں جس کے بہت حوصلہ افزا نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں. ہم تو مسلسل انسانوں اور خاص کر مسلمانوں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں اور ان کے اندر سے صبر، شکر اور محبت جیسے اوصاف ختم کرنے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں کیونکہ صبر سے مصیبتیں ٹالی جاتی ہیں ،شکر سے نعمتیں بڑھتی ہیں اور محبت سے زندگی خوشگوار بن جاتی ہےاس کے مقابلے میں انہیں بے صبری، ناشکری ، حسد اور حرص کا ایک ایسا مرکب بنائیں گے کہ نہ صرف اُن کی اپنی زندگی ایک عذاب بن جائے گی بلکہ دوسروں کے لیے بھی باعث مصیبت ہوں گے۔

یہ ہماری ہی محنت کا نتیجہ ہے کہ آج مسلمان ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے ، مساجد سے چپل چرانے ، کرپشن ، ملاوٹ اور یہاں تک خانہ کعبہ کے اندر بھی منشیات سمیت طواف کرتے ہوئے کوئی عار محسوس نہیں کرتے ۔ ذرا صبر کریں بہت جلد دنیا آپ کی خامیاں بھول جائے گی.

ناظرین اگر مذکورہ آرٹیکل کے تناظر میں ہم اپنے ضمیر کے کٹہرے میں کھڑے ہوکر اپنے اعمال کا جائزہ لیں تو اچھی طرح معلوم ھو جائے گا کہ ہم انسانیت کے کس ڈگر پہ کھڑے ہیں مجھے تو کتوں اور ابلیس کا یہ منصوبہ سو فیصد کامیاب ہوتا دیکھائی دے رہا ہے۔ کیونکہ انسانوں نے وہ ساری عادات خبیثہ اپنائی ہیں جن کی وجہ سے کتے باعث نفرت اور باعث حقارت گردانے جاتے ہیں ۔اگر عزت اور سکون کی زندگی مقصود ہو تو ہمیں اپنے اندر صبر، شکر، درگزر ، اخوت ، بھائی چارے اور تکریم انسانیت جیسی صفات پیدا کرنے ہوں گے۔ دین کے معاملے میں اپنے سے اعلیٰ اور دنیا کے معاملے میں اپنے سے ادنیٰ لوگوں کی حالت زندگی پر غور کرنا ہوگا تاکہ واپس اشرف المخلوقات کاچینا ہوا لقب دوبارہ حاصل کرسکیں۔
ہم نے ہر صورت میں خواہشات کے بے رکاب گھوڑے کو قابو کرنا ہوگا کیونکہ اس گھوڑے نے انسان کو جس مقام پرپہنچانا ہے، وہاں سے ذلت و رسوائی کی سفرکا آغاز ہوتا ہے۔ ہمیں اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی خواہشات کی بجائے اپنی ضروریات کو مد نظر رکھ کر کرنی ہوگی کیونکہ ضروریات فقیروں کی تو پوری ہو سکتی ہیں مگر خواہشات بادشاہوں کی بھی پوری نہیں ہو سکتی۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:۔

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔
بہت نکلے میرے ارمان مگر پھر بھی کم نکلے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں