محمد مختار سولگی کالم نگار،پی این پی نیوز ایچ ڈی
اسوقت مہنگاٸی عروج پر ہے۔ سفید پوش طبقہ پریشانیوں کی برداشت کے آخری مرحلے پر ہے،جہاں سے موت یا بے حسی کی ابتدا ہوتی ہے۔ ضروریاتِ زندگی پوراکرنا مشکل ترین ہے۔ رسم و رواج کے دکھاوے کے اس دور میں اور ان سخت حالات میں غریب کیلٸے اپنی بیٹی کی شادی کرنا اور اپنا سب سے اہم فرض ادا کرنا ناممکن ہوتا جارہا ہے۔ ہر ذی شعور انسان کی طرح راقم بھی شدید ذہنی خلفشار کا شکار ہے۔ چند دن قبل روٹین کی ایک پوسٹ نظر سے گزری جو میرے بیٹے قمر عباس نے شٸیر کی۔ یہ پوسٹ آپ سے بھی شٸیر کرنا ضروری سمجھا کہ ہوسکتا ہے کوٸی غریب شہری اپنی پریشانی سے نجات پا لے۔
نصر توتھا،ایک بھارتی مسلمان ہے‘ جو بھارت کی ریاست تامل ناڈو کے گاؤں مالا پورم میں رہتا ہے اور ٹیکسی چلاتا ہے،اسنے لکھا کہ ‘ 2020کے شروع میں اس کی ٹیکسی میں ایک خاتون پسنجر بیٹھی‘ نصر توتھا بیک مرر میں دیکھتا رہا کہ وہ خاتون سارا راستہ روتی رہی۔ منزل مقصود پر جب وہ اترنے لگی تو نصر نے عاجزی سے ہاتھ جوڑ کر اس سے پوچھا ’’بہن آپ مجھے پریشان دکھائی دیتی ہیں‘ آپ اپنی پریشانی بتائیں‘ ہو سکتا ہے میں آپ کی کوئی مدد کر سکوں‘‘ یہ سن کر خاتون نے زور زور سے رونا شروع کر دیا‘ نصر نے اسے تسلی دی‘ خاتون تھوڑی سی بحال ہوئی تو اس نے بتایا ’’کل میری بیٹی کی شادی ہے‘ ہم غریب لوگ ہیں‘ ہم بیٹی کے لیے شادی کا جوڑا نہیں خرید سکتے‘ میں اپنے ایک عزیز کے پاس مدد کے لیے گئی تھی لیکن اس نے انکار کر دیا‘ مجھے اب سمجھ نہیں آ رہی میں کیا کروں؟‘‘۔
نصر بھی پریشان ہو گیا‘ اس نے چند لمحے سوچا اور اسے پھر یاد آ گیا پچھلے ماہ اس کے ایک دوست کی بیٹی کی شادی ہوئی تھی‘ دوست نے بیٹی کو دس ہزار روپے کا جوڑا لے کر دیا تھا‘ یہ جوڑا اب بیٹی کے پاس فالتو پڑا ہو گا اور میں اگر وہ اس سے لے کر اس خاتون کو دے دوں تو یہ خاندان پریشانی سے نکل آئے گا‘ نصر نے خاتون کو تسلی دی‘ اس کا ایڈریس لیا اور اس سے کہا’’ آپ اطمینان سے گھر چلی جائیں‘ میں شام تک آپ کو شادی کا جوڑا پہنچا دوں گا‘‘۔
خاتون بھیگی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی‘ نصرتوتھا ،سیدھا اپنے دوست کے پاس گیا‘ اس سے معاملہ ڈسکس کیا‘ دوست نیک انسان تھا‘ وہ فوراً مان گیا‘ یہ دونوں بیٹی کے گھر گئے‘ اسے ایشو بتایا‘ بیٹی کے پاس جوڑا فالتو پڑا ہوا تھا‘ اس نے اسی وقت ٹرنک سے نکال کر دے دیا‘ نصر ڈرائی کلینر کے پاس گیا‘ وہ بھی اس کا دوست تھا‘ اس نے جوڑا مفت ڈرائی کلین کر دیا اور نصر شام سے پہلے وہ جوڑا لے کر اس خاتون کے گھر پہنچ گیا‘ خاندان نے جوڑا دیکھا تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا‘خاندان باری باری نصر کے ہاتھ چومنے لگا۔
نصر کو بے تحاشا خوشی ہوئی اور اس نے سوچا‘ ہمارے ملک میں لاکھوں خاندان اس مسئلے سے گزرتے ہیں‘ میں اگر کوشش کروں تو میں کم از کم چند ہزار ضرورت مندوں کا یہ مسئلہ حل کر سکتا ہوں‘ یہ خیال آئیڈیا بنا اور اس آئیڈیا نے آگے چل کر ’’ڈریس بینک‘‘ کے نام سے تامل ناڈو میں ایک دلچسپ این جی او کی بنیاد رکھ دی۔
نصر توتھا نے اس شام اپنے دوستوں سے اس واقعے کا ذکر کیا‘ یہ لوگ بیٹھے اور سوچا ہمارے ملک میں ہر دلہن کو شادی کا جوڑا چاہیے ہوتا ہے‘ جوڑے مہنگے ہوتے ہیں اور غریب خاندان ان کا مالی بوجھ نہیں اٹھا سکتے‘ دوسرا شادی کا جوڑا صرف ایک دن استعمال ہوتا ہے‘ دلہن شادی کی رات جوڑا اتارتی ہے اور پھر دوبارہ نہیں پہنتی اور یہ پوری زندگی ٹرنکوں میں پڑا پڑا ضایع ہو جاتا ہے۔
ہم اگر کوشش کریں تو ہم دلہنوں سے ان کے عروسی جوڑے جمع کر لیں‘ انھیں ڈرائی کلین کرائیں‘ استری کریں اور غریب بچیوں کو دے دیں تو اس سے لاکھوں بچیوں کی شادیاں ہو سکتی ہیں‘تمام دوستوں نے فیصلہ کیا ہم اپنے اپنے گھروں کے صندوق کھولتے ہیں‘ جوڑے جمع کرتے ہیں اور ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیتے ہیں اور پھر اس کا رزلٹ دیکھتے ہیں‘ نصر نے اگلے دن اپنے دوستوں کے گھروں سے شادی کے جوڑے جمع کرنا شروع کیے تو اس کے پاس دو دن میں دس جوڑے جمع ہو گئے۔
اس نے بازار میں ایک دوکان کرائے پر لی‘ جوڑے ڈرائی کلین اور استری کر کے پیک کیے‘ ان پر سائز لکھا اور دکان کے باہر ’’ڈریس بینک‘‘ کا بورڈ لگا دیا اور ساتھ ہی فیس بک پر اعلان کر دیا ’’اگرآپ کی بیٹی یا بہن کی شادی ہے اور آپ شادی کا جوڑا افورڈ نہیں کر سکتے تو آپ ہم سے جوڑا مفت لے جائیں‘‘ لوگوں نے رابطہ کیا اور تمام جوڑے اس شام تک نکل گئے۔ ’’ڈریس بینک‘‘ پہلے ہی دن خالی ہو گیا ’’ہم اب کیا کریں‘‘ نصر توتھا اور اس کے ساتھی اس شام بیٹھ کر ایک دوسرے سے پوچھنے لگے۔
وہ رات تک چائے پیتے رہے اور مسئلے کا حل تلاش کرتے رہے یہاں تک کہ حل نکل آیا‘ تمام دوستوں نے فیصلہ کیا ہم سوشل میڈیا کے ذریعے شادی شدہ لوگوں سے رابطہ کرتے ہیں‘ ان سے شادی کے جوڑے جمع کرتے ہیں اور یہ ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیتے ہیں‘ نصر اور اس کے دوستوں نے فیس بک کے لیے پیغام بنائے اور سوشل میڈیا پر چڑھا دیے‘ یہ پیغام جس شخص تک پہنچا اسے فوراً یاد آ گیا‘ میں نے بھی شادی کی تھی‘ اس کا بھی ایک جوڑا تھا اور میری بیوی نے اگلے ہی دن وہ جوڑا کسی صندق میں دفن کر دیا تھا۔
لوگوں نے پرانے صندوق کھولے‘ شادی کے جوڑے نکالے‘ ڈرائی کلین کرائے‘ استری کیے اور پیک کر کے نصر کو بھجوا دیے یوں ڈریس بینک میں شادی کے جوڑوں کا انبار لگ گیا‘ ہفتے میں 300 جوڑے جمع ہو گئے‘ یہ مسئلہ حل ہو گیا تو نیا مسئلہ پیدا ہو گیا‘ ضرورت مند دور دراز کے علاقوں سے رابطہ کر رہے تھے‘ نصر اگر یہ جوڑا انھیں کوریئر کرتا تو اس کے لیے ٹھیک ٹھاک رقم درکار تھی اور ایک معمولی ٹیکسی ڈرائیور یہ مالی بوجھ برداشت نہیں کر سکتا تھا‘ دوسری طرف اگر ضرورت مندوں کے پاس کورئیر کے لیے رقم ہوتی تو وہ ڈریس بینک سے شادی کا جوڑا کیوں منگواتے؟
وہ خود اپنی جیب سے خرید لیتے‘ دوست ایک بار پھر بیٹھے اور اس کا حل تلاش کرنا شروع کر دیا اور رات گئے یہ حل بھی مل گیا‘ یہ لوگ اگلے دن بس اڈے پر گئے‘ بس مالکان سے ملے‘ انھیں اپنے ڈریس بینک کے بارے میں بتایا اور ان سے درخواست کی آپ اگر مہربانی فرما کر ہمارے جوڑے مفت ڈیلیور کر دیا کریں تو غریب لوگوں کا بھلا ہو جائے گا‘ بس مالکان فوراً مان گئے‘ یہ لوگ اب واٹس ایپ کے ذریعے ’’آرڈر‘‘ لیتے ہیں‘ شادی کا جوڑا پیک کر کے بس ڈرائیور کے حوالے کرتے ہیں اور بس ڈرائیور کا فون نمبر‘ بس کا نمبر اور ٹائم ضرورت مند کو بھجوا دیتے ہیں اور ضرورت مند وقت پر بس اسٹاپ پہنچ کر ڈرائیور سے اپنا سوٹ لے لیتے ہیں۔
یہ این جی او اپریل 2020میں بنی تھی‘ یہ اب تک شادی کے 300 سوٹ ڈونیٹ کر چکی ہے جب کہ 800 سوٹ ان کے پاس تیار پڑے ہیں‘ تمام سوٹ پانچ ہزار سے لے کر پچاس ہزار مالیت کے ہیں‘ ڈریس بینک ضرورت مندوں سے سوٹ واپس نہیں لیتا تاہم انھیں یہ ہدایت ضرور کرتا ہے ’’آپ شادی کے بعد یہ سوٹ ضایع مت کریں‘ آپ بھی یہ کسی نہ کسی ضرورت مند کو دے دیجیے گا‘ عین ممکن ہے آپ کی طرح کوئی اور ماں بھی پریشان بیٹھی ہو‘‘ لوگ اس ہدایت کو سیریس لیتے ہیں‘ یہ سوٹ کسی اور ضرورت مند کو بھجوا دیتے ہیں یا پھر انھیں واپس کر دیتے ہیں۔ یہ ایک غریب ٹیکسی ڈرائیور کا ایک چھوٹا سا اینی شیٹو ہے‘ اس قدم نے تامل ناڈو کے لوگوں کو ویلفیئر کا ایک نیا طریقہ سکھا دیا‘ آپ یہ یاد رکھیں معاشرے ہمیشہ چھوٹی چھوٹی نیکیوں اور ڈریس بینک جیسے اینی شیٹوز سے ٹھیک ہوتے ہیں‘ آپ بھی یہ سطریں پڑھتے پڑھتے سوچیں‘ آپ کی جب شادی ہوئی تھی تو آپ اور آپ کی بیگم صاحبہ نے کتنے فینسی ڈریس بنوائے تھے یا آپ نے اپنی بہن یا بیٹی کو کتنے مہنگے سوٹس میں الوداع کیا تھا۔ہمارے ملک میں شادی کے سوٹس عموماً تیس چالیس ہزار روپے سے اسٹارٹ ہو کر پانچ دس لاکھ روپے تک جاتے ہیں لیکن یہ سوٹس چند گھنٹوں کے ہوتے ہیں‘ دلہن اور دولہا جوں ہی کمرے میں داخل ہوتے ہیں ان سوٹس کی ویلیو ختم ہو جاتی ہے‘ آپ ایک لمحے کے لیے سوچیں آپ کے وہ سوٹس کہاں گئے؟ مجھے یقین ہے آپ کو یاد بھی نہیں ہو گا‘مجھے یہ بھی یقین ہے آپ اگر انھیں تلاش کریں گے تو وہ کسی نہ کسی صندوق یا الماری میں خوار ہو رہے ہوں گے اور یہ وہاں خوار ہوتے ہوتے ضایع ہو جائیں گے۔ہم سب کے گھروں میں پرانی سائیکلیں ذلیل ہو رہی ہیں‘ یہ سائیکلیں سیکڑوں لوگوں کے کام آ سکتی ہیں‘اسی طرح ہمارے بچے بڑے ہو گئے ہیں‘ ان کے کھلونے اسٹور رومز میں پڑے ہیں‘ ہم یہ نکال کر ’’ٹوائز بینک‘‘ کیوں نہیں بناتے؟اور ہمارے گھروں میں فالتو برتنوں‘ پرانے فرنیچر‘ پرانے جوتوں‘ پرانے کمبلوں‘ رضائیوں‘ چادروں‘ کپڑوں‘ چھتریوں‘ ٹائروں‘ موٹر سائیکلوں‘ کھڑکیوں‘ دروازوں اور پردوں کا انبار بھی لگا ہوا ہے‘ ہم ان کے بینک بھی کیوں نہیں بناتے؟
آپ یہ یاد رکھیں کہ ہم جن چیزوں کو بے کار سمجھتے ہیں وہ ہزاروں، لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں کی زندگی کی تمنائیں ہوتی ہیں‘لوگوں کی پوری پوری نسل ان کی خواہش میں زندگی کے دائرے سے نکل جاتی ہے‘ ہم اپنے اسٹور‘ صندوق اور پیٹیاں خالی کر کے ان کی خواہشیں‘ ان کی تمنائیں پوری کیوں نہیں کرتے لہٰذا آپ جہاں بھی ہیں اور جو بھی ہیں آپ نصرتوتھا بن جائیں اور اس ملک میں ’’صندوق کھولو‘ الماریاں خالی کرو اور اسٹور روم صاف کر دو‘‘ مہم چلائیں‘ آپ اس ملک میں چھوٹی چھوٹی نیکیوں کے چھوٹے چھوٹے بینک بنائیں‘آپ یقین کریں یہ بینک اس ملک کا مقدر بدل دیں گے‘۔۔۔