تحریر: میاں محمد عظیم ،پی این پی نیوز ایچ ڈی
وہ بادلوں کے سحر میں مبتلا پھر بھی چھت کا ہی متلاشی تھا
دھوپ کی تپش کی چاہ میں بھی چھاوں کا ہی متلاشی تھا
اس کو روئے زمین سے دور ہواوں میں اڑنا آ تا تھا
نہ جانے کیوں صحراوں میں بھٹکتا وہ دریاوں کا ہی متلاشی تھا
اس کے شہر میں ہر سو روشنیوں کی بھرمار تھی
نہ جانے کیوں جنگلوں میں بھٹکتا وہ چاند کی روشنی کا ہی متلاشی تھا
اس کو محبتوں پر بھی بڑا عروج حاصل تھا
نہ جانے کیوں وفاوں کے شہر میں بھی وفاوں کا ہی متلاشی تھا
اسے دیکھ کر تو نہیں لگتا اسکا دکھوں سے بھی کوئی واسطہ ہو گا
نہ جانے کیوں اجنبیوں میں بھی وہ اکثر رشتوں کا ہی متلاشی تھا
خالانکہ میں خود اس کے سحر میں گرفتار ہر وقت بے چین
تھا
لیکن وہ کسی اور دنیا میں گم اپنے لیے سکھ چین کا ہی متلاشی تھا