وہ خود تو مر رہا تھا پر
اپنی سوکھی ہتھیلی پر
اس نے ا ٹھا کے رکھا تھا
اک شجر کہ جس کو بچا کے رکھا تھا
اکھڑی سانسوں سی بکھرتی ہستی سے
اپنی جڑوں سے آخری آب حیات چن کر کے
عالیشان ، بلند، خود شناس،اک شاندار درخت
اپنی مٹی، اپنی ہستی سے وفا دار درخت
میں نے حیرت سے پوچھا اے عمر رسیدہ!
مائل مرگ ، لرزتے کانپتے غم رسیدہ
کیا سمائی دل میں تیرے کیونکر تو سہارا ہو؟
یہ تیرا نحیف بدن، یہ ضعیفی، کس کا چارہ ہو؟
اپنی بوڑھی آنکھوں کی جھریوں سے جھانک کر بولا
دکھ کومسکان کی بدلی سے ڈھانپ کر بولا
نہیں ہے ضائع میری عمرگر میں مر جاؤں
ہاں یہ زیاں ہے کہ جو میں بے ثمر جاؤں
302