نمیرہ محسن 65

حضرت مصعب بن عمیر میدانِ اُحد میں اترے تو جان نثاری کی ان مٹ مثال قائم کر دی

حضرت مصعب بن عمیر کا تعلق مکہ کے اس طبقے سے تھا جسے ھماری دنیا میں اشرافیہ سمجھا جاتا ھے اور ان کی اولادیں برگر کہلاتی ہیں۔ مکہ کی جس بھی گلی سے جب یہ حسین و جمیل نوجوان گزرا کرتا تو جھروکوں کی چلمنیں اٹھ جاتیں اور آنکھیں اسے ہزار اشتیاق و وفور سے تکتی تھیں۔ خوش گوار مہک سارے میں بس جاتی اور ہر ایک پہ آشکار ہوتا کہ آج مصعب کا ادھر سے گزر ہوا ھے۔ وہ مصعب جس کا ہر شاہانہ پیرہن یمن سے سِل کر آتا اور صرف ایک ہی بار پہنا جاتا اور جو خوشبو لگاتے ، وہ اتنی گراں قدر ہوتی کہ مکہ کے معدودے چند ہی مالدار ترین لوگوں کو میسر ہوتی تھی۔ اس خوش باس و خوش لباس جوان کو اپنی ماں سے بے حد محبت تھی کہ اس کا کہا کوٸی حکم نہیں ٹالتے تھے مگر ایک دن اس بے فکر نوجوان کے کانوں نے اس آواز کو سنا جو تیزی سے مکہ کی سرزمین کو حیران کیے جا رہی تھی ۔۔۔۔ یہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی صدا تھی جو منجانب اللہ توحید کی مشعل لے کر ظلمت کے مد مقابل ابھرے تھے ۔ اس صدا نے سارے سماج اور معروض میں ہلچل مچا دی تھی۔ مکہ کے صغیر و کبیر ، غلام و آزاد ، امیر و غریب ، حاکم و محکوم ، مشرکین ، یہود ، نصاریٰ ، خاص و عام ، یعنی مکی معاشرے کی ہر کمیونٹی میں موضوع گفتگو محمد ﷺ کی وہ دعوت تھی جو شرک و طاغوت کے خلاف کھلی بغاوت کی صورت اُبھر رہی تھی ، بتدریج یہ دعوت اہل مکہ کو متاثر کرنے لگی اور مشعل رسالتﷺ کے ارد گرد توحید کے پروانے جمع ہونے لگے۔ مصعب نے بھی اس صداۓ حق کو سنا ، مضطرب ہوۓ اور اس کاروانِ توحید میں جا شامل ہوۓ، لیکن اس قافلے کی نوعیت و ماہیت ہی جدا تھی۔ یہ غرباء کہلاتے تھے۔ مکہ کی فضاؤں نے وہ دن دیکھے ہیں جب کلمہ شہادت پڑھ کر مرجانا زندہ رہنے سے زیادہ مشکل تھا۔ صہیب ، بلال ، سمعیہ سمیت نجانے کتنے تھے جو مشرکین مکہ کے ستم بلاخیز کا نشانہ بنے ، ثابت قدم رہے اور رہتی دنیا تک امر ہوگئے۔ مصعب نے جب اس راہ پُرخار پر چلنے کا عزمِ مصمم کیا تو پھر الفتِ مادری ، تزک و احتشام بھری زندگی ، آساٸشات و تعیش ، تفریح غرض یہ کہ سب کچھ دین متین کے لیے بلاجھجھک تج دیا ۔ لمحے بھر کا بھی تؤقف نہ کیا۔
پہلا ، فوری اور سخت ترین ردعمل ماں کی طرف سے آیا۔ وہی ماں جس کے لیے مصعب ہتھیلی کا چھالا تھا ، اُس نے ساری سہولیات و رعایتیں سلب کیں اور پا بہ جولاں مقید کر دیا۔ پھر تشدد و ترغیب کا ہر حربہ آزمایا گیا تاکہ مصعب پلٹ کر باطل کی قدیمی روش پر آۓ مگر ۔۔۔ سب تدبیریں اکارت گٸیں۔ ساری مار پیٹ اور لالچ بے اثر ثابت ہوٸی۔ جس طرح قید سے رہائی پائی وہی جانتے تھے یا ان کا رَبّ۔ نٸی غلامی کی شان ہی نرالی تھی۔ اب ان کی آزاد گردن میں محمد عربی ﷺ کی غلامی کا طوق تھا۔ محبس سے سیدھے نبی علیہ السلام کی انجمن میں پہنچے تو حال یہ کہ وجود پر کھردرے ٹاٹ کا فقط ایک ہی پارچہ تھا جسے ببول کے کانٹوں سے جوڑنے کی ناکام سعی کی گئی تھی اور ستر پوشی کا تقاضا بمشکل پورا ہو رہا تھا۔ سرکار دوجہاں ﷺ کا چہرہ۶ اقدس مصعب کو دیکھ کر کِھل اٹھا۔ اپنے ہر صحابی کے جوہر و خواص ان پر بخوبی عیاں تھے۔ پھر جلد ہی وقت آیا جب سیدنا مصعب بن عمیر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے داعی و سفیرِ حق بنا کر مدینہ بھیجا۔ انتخاب بھی کیا خوب تھا، فہم و فراست کے پیکر کے دلنشیں انداز بیاں اور دعوت فکر نے مدینہ کے چند نمایاں قبائل میں آتش شوق بھڑکا دی۔ نتیجتاً اہل مدینہ جوق در جوق اسلام کی پناہ میں آنے لگے۔
معرکہ۶ بدر کی نوبت آٸی تو ان کی تیغ اپنے مشرک اقربا پہ بجلی بن کر برسی۔ اختتام پر مشرک قیدیوں کے پاس سے گزرے، اچانک نظر اپنے ہی سگے بھائی پر پڑی جس کی مشکیں ایک صحابی۶ رسول کَس رھے تھے۔ مصعب مسکراۓ اور فرمایا : ”اس کے ہاتھ خوب اچھی طرح باندھو ، اس کی ماں بہت مالدار ھے۔ تگڑا فِدیہ دے گی۔“
میدانِ اُحد میں اترے تو جان نثاری کی ان مٹ مثال قائم کر دی ، حضور ﷺ کی حفاظت کرتے ہوۓ شہید ھوئے۔ وہ دن اہل حق پہ سخت کٹھن تھا جب سیدنا حمزہ سمیت کتنے ہی بطلِ جلیل خدا کی بارگاہ میں پہنچے۔ اتنی مشکل گھڑی تھی کہ باعثِ تخلیقِ کاٸنات کے دندان مقدس شہید ہوئے۔ اپنے اعزا و احباب کی کٹی پھٹی لاشیں دیکھ کر اشک ہاۓ رنج و غم رخساروں پہ بہہ نکلے۔
جی ہاں وہی سنگین دن تھا۔ مصعب کے دونوں علم بردار بازو کٹے ہوۓ تھے اور خون آلود وجود پہ تب بھی ایک ہی کپڑا تھا جسے کفن بنایا گیا۔ منظر یہ تھا کہ سر چھپایا جاتا تو پیر ننگے اور پیر ڈھانپے جاتے تو سر کُھل جاتا۔ یہ بھانپ کر رسول مہربانﷺ نے فرمایا : ” سَر پہ کپڑا اور پیروں پر اذخر (ایک نوع کی گھاس) رکھ دو۔“ اور آقاﷺ نے جب ستارہ صورت مصعب کے چہرے پہ نگاہ کی تو بے اختیار رو دیے۔ فرمایا : ”مکہ کی گلیوں نے اس سے زیاد٥ بانکا جوان نہیں دیکھا ہو گا۔“

خداۓ برحق کی قسم ! اسلام ، ہم امت تک کبھی نہ پہنچتا اگر مصعب جیسے نبی ﷺ کے پروانے اس کی ترویج و فروغ کے لیے بے جگری سے قربان نہ ہوتے، بے شک یہ مطہر ہستیاں ہی تھیں جنھوں نے دنیا سے جو کچھ لیا ، اس سے ہزار گنا بڑھ کر لوٹا دیا۔
رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں