خواہشات کے تعاقب میں 117

عطائی ڈاکٹرز اور اپاہج سیاسی نظام

تحریر: دست علی مہمند

چین کی معاشی ترقی کے اگے بند باندھنے کے لیے عالمی اسٹبلشمنٹ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے . جنوبی ایشیاء میں چین کی معیشت کو نکیل ڈھالنے کے لیے جاپان, جنوبی کوریا, فلپائن, بھارت اور پاکستان , خلیج میں ایران کے گرد گھیرا تنگ کرنے اور مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو تحفط دینے کی خاطر , مصر, لبنان, شام عراق, سوڈان, یمن ترکی, کویت اور روس کو کاونٹر کرنے کے لیے افغانستان, یوکرین, ارمینیا اور وسط ایشیاء کے مسلمان ممالک کے اندر حکومت سازی کے عمل پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے. امریکہ اور اس کے اتحادی جمہوری نظام پر یقین رکھتے ہیں. لیکن جہاں پر جمہوری نظام ان کے مفادات سے متصادم ہو تو اپنے مفادات کی خاطر نظریہ ضرورت کے تحت وہاں کے امریت اور بادشاہت کو سینے سے لگانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے. مصر کے جنرل سیسی کا مارشل لاء , حسنی مبارک اور انور سادات کی ڈکٹیٹر شپ, کویت اور عرب امارات کی بادشاہت, پاکستان کے جنرل ایوب, ضیاء اور مشرف کے مارشل لاء اور ڈکٹیٹر شپ کی حمایت کرنا اس کی زندہ مثالیں ہیں۔

اہم جغرافیائی پوزیشن اور چین کے پڑوسی ہونے کے ناطے پاکستان علاقے میں بہت زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے. چین کو اپنی برامدات کے لیے پاکستانی بندرگاہیں اور زمینی راستے انتہائی محفوظ, کم خرچ اور آسان پڑتے ہیں. ان چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ پاکستان کے اندر حکومت سازی کے عمل پر کڑی نظر رکھتی ہے. وہ ہر صورت میں پاکستان کے اندر چائینہ مخالف حکومت قائم کرنا چا ہتی ہے.

پاکستانی سیاست پر اثر انداز ہونے کے لیے انہوں نے پاکستانی سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ, سماجی تنظیموں اور تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں کے اندر اپنے خاص نمائندے تیار کیں ہیں.جو ان کے مفادات کے لیے شب و روز کام کرتے ہیں.
عالمی اسٹیبلشمنٹ کا ہمارے حکومتی اداروں اور سیاسی پارٹیوں کے اندر اثر و رسوخ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اداروں کے ہائی پروفائلز اپنے پروموشن اور سیاست دان حکومت کے ایوانوں تک رسائی کے لیے امریکی یاترا لازمی سمجھتے ہیں.
ہر سیاسی پارٹی اپنی پراگرس رپورٹ بین لاقوامی اسٹیبلشمنٹ کو کسی نہ کسی ذریعے سے پہنچا دیتی ہے.
یہاں تک کہ اب ہمارا الیکشن کمیشن اور عدلیہ بھی اپنے فیصلے کرنے میں آزاد نہیں ۔
سیاسی جماعتوں کے جمہوریت پر یقین کا یہ حال ہے کہ الیکشن جیتنے والے پارٹی اپنے اداروں کے کردار اور مداخلت کو ملک کی سلامتی کے لیے ناگزیر سمجھتے ہیں اور الیکشںن کمیشن اور عدلیہ کے فیصلوں کو مثالی اور شفاف گردانتے ہیں جبکہ ہارنے والے پارٹیاں جیتنے والوں کو سلکٹڈ اور یہودی ایجنٹ اور اسٹبلشمنٹ کی بی ٹیم کہنا شروع کر دیتے ہیں.
حزب اقتدار حزب اختلاف کو دبانے کے لیے ان کے سابقہ ادوار کے کرپشن سے متعلق دستاویزات نکال کر کیسس بناتے ہیں اور حزب اختلاف والے جلسے جلوس شروع کردیتے ہیں. جس سے ملک انتشار اور انارکی کا شکار ہوجاتا ہے اور حکومت کی تمام تر توانائیاں ملکی ترقی کے بجائے داخلی امن وامان اور استحکام پر صرف ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ملک بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبتا چلا جاتا ہے.

شروع میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کو ڈیوائیڈ اینڈ رول فارمولے کے تحت اپس میں مسلسل لڑوایا جاتا رہا۔ لیکن بعد میں انہوں نے ملک میں سیاسی کلچر کو فروغ دینے کی خاطر میثاق جمہوریت پر اتفاق کیا.جسکی بدولت دونوں کو باری باری اپنے پانچ سال پورا کرنے کا موقع ملا اور ملک میں کچھ حد تک جمہوری کلچر وقدریں فروغ پانے لگیں۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کا یہ طرز عمل عالمی و مقامی مقتدر قوتوں کو قطعاً پسند نہ آیا اور اس نوزائیدہ جمہوری کلچر کو در گور کرنے کے لیے تحریک انصاف کے پودے کو فوجی فرٹیلائزر دے کر ایک ایسا تناور درخت کھڑا کردیا گیا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوں کے سیاسی پھلدار پودوں نے اس کے سائے تلے پھل دینا چھوڑ دیا۔

2013ء کے الیکشن سے پہلے تحریک انصاف کے قائد نے جماعت اسلامی سے سیاسی اتحاد کے لیے کمیٹی تشکیل دی تاہم مقتدر قوتوں نے جماعت اسلامی سے اتحاد ختم کرواکے اپنے ایلیکٹبلز کو تحریک انصاف مییں شامل کروا دیے ۔ جماعت اسلامی سے اتحاد ٹوٹنے پر اس وقت کے آمیر جماعت سید منور حسن مرحوم نے اپنے ردعمل میں کہا کہ اگر تحریک انصاف نے ایلکٹبلز کے سہارے حکومت بنائی تو یہ تحریک انصاف کی سیاسی موت کے مترادف ہوگی. یہ سیاسی خانہ بدوش تحریک انصاف میں جس رفتار سے شامل ہوئے ہیں اسی رفتار سے واپس چلے جائیں گے۔
یوں مرحوم منور حسن صاحب کی پیشنگوئی بالکل درست ثابت ہوئی۔
2023 کے عدم اعتماد میں ایلکٹیبلز کے ھجرت کی وجہ سے تحریک انصاف وینٹیلٹر پر شفٹ ہو گئی۔۔جہانگیر ترین ، علیم خان۔ محمود خان اور پرویز خٹک کے کرپشن کے ٹریلرز چلا کر انہیں پارٹی کے اندر دراڑیں ڈالنے کا کام سونپ دیا گیا دوسری جانب عدم اعتماد کی کچھڑی تیار کرنے کے لیے مولانا فضل الرحمان برانڈ مصالحہ جات سے خوب استفادہ لیاگیا جس کے بدلے مرکزی حکومت میں اس کے حجم سے زیادہ حصہ دیا گیا۔

اگرایک طرف پیپلز پارٹی, جمعیت علمائے اسلام اور مسلم لیگ بنی گالہ کیمپ سے نکلنے والے سیاسی خانہ بدوشوں کو گود لینے کے لیے تیار بیٹھی تھی تو دوسری جانب 2024ء کے الیکشن کے لیے نادیدہ قوتیں اپنے مقامی نمائندوں کے سفارشات کی روشنی میں پرانے اور نئے ایلیکٹیبلز کے صورت میں ایک اور گروہ تیار کر رہا تھا جو ریٹائرڈ بیورکریٹس , ٹیکنوکریٹس اور فوجیوں یا ان کے اولادوں پر مشتمل تھا. جوکہ بعد مختلف پارٹیوں سے ان کے لیے قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ ٹکٹیں بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ۔
لیکن جب اسٹبلشمنٹ کی ہزار۔ کوششوں کے باوجود بھی 2024ء کے الیکشن میں مسلم لیگ کو واضح برتری حاصل نہ ہوئی تو اس کمی کو پورا کرنے کے لیے نظریہ ضرورت کے تحت فارم 47 کا فارمولا عدلیہ اور الیکشن کمیشن کے سامنے رکھ کر مسلم لیگ کے مردہ گھوڑے میں نئی روح پھونک دی گئی ۔ اور مزید جسمانی کمزوری دور کرنے کے لیے پیپلز پارٹی اور ایم کیوں ایم کے ایم اینیز کو اس گھوڑے کو بطور چارہ پیش کیا گیا۔

جمعیت علماء اسلام کا عوام میں سیاسی گراف قدرے بہتر ہو رہا تھا جس کا مظاہرہ انہوں نے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں کیا تھا .ملکی اور بین الاقوامی اسٹبلشمنٹ کی گوڈ بک میں اندراج کی خاطر جمعیت نے امریکہ مخالف بیانیہ کوکچھ وقت کے لیے موخر کردیا تھا جمعیت کے قائد اپنے جلسوں میں کھلم کھلا اس بات کا اظہار بھی کر رہے تھے کہ بین الاقوامی اسٹبلشمینٹ ہم پر بھی ایک بار اعتماد کرکے دیکھے . انشاءاللہ ہم عالمی برادری کے ساتھ چلنے کو تیار ہیں۔لیکن عدم اعتماد کے بعد بڑھتی ہوئی مہنگائی ، امن و امان کی روز بروز خراب ہوتی ہوئی صورت حال اور زرداری ، نواز شریف کے کرپشن کی دفاع کرنےاور مریم نواز کے سنگ جلسے جلوس کرنے کی وجہ سے جمیعت کی سیاسی ساکھ کو بہت بڑا نقصان پہنچا اور اس طرح اسٹبلشمنٹ نے ایک تیر سے دو شکار کیے۔ یوں عدم اعتماد کی صورت میں عمران خان کی حکومت کے خاتمے اور 2024ء کے الیکشن میں جمعیت سے جان چھڑانے میں کامیاب ہوئی ۔

الیکشن میں بری طرح ناکام ہونے پر جمیعت علمائے اسلام کے قائد محترم ایک عجیب کشمکش میں مبتلا ہیں صبح عمران خان کو یہودی ایجنٹ قرار دینے کا فتویٰ واپس لیتے ہیں لیکن جب شام کو صحافی حضرات پرنس کانفرنس کے دوران انہیں سابقہ فتوے یاد دلاتے ہیں تو کچھ اس انداز سے رطب اللسان ہوتے ہیں کہ ہمارا اختلاف عمران کے جسم سے نہیں ان کے دماغ سے تھا اگر اس کا دماغی توازن ٹھیک ہوا تو ہمیں موجودہ ناجائز حکومت جوکہ فارم 47 کی بنیاد پر کھڑی ہے کے خلاف تحریک انصاف کے ساتھ مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنے ہر کوئی اعتراض نہیں ہے. لیکن تحریک انصاف کی اندرونی حلقوں کی باہمنی رسہ کشی اور جمیعت کے عدم اعتماد کے دوران اسٹبلشمنٹ سے خفیہ ساز باز اور مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی سے پرانے مراسم سے ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو اس غیر فطری اتحاد سے کوئی خطرہ نہیں۔
اس غیر یقینی سیاسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے نومنتحب امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن جو سیاسی بصیرت ، عزیمت و جرات ، مصمم ارادوں اور مضبوط اعصاب کے مالک ہیں سے یہ امید اور توقعات وابستہ ہوسکتی ہیں کہ وہ اس اپاہج سیاسی نظام جو مسلم لیگ, پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام اور تحریک انصاف کی وجہ سے زندگی اور موت کی کشمکش میں انتہائی نگہداشت کی یونٹ میں بےیارومدگار پڑا ہے کی صحیح تشخیص کرکے دوبارہ اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونے میں اپنے تمام تر توانائیاں اور صلاحیتیں بروے کار لائیں گے ۔
اللہ تعالیٰ اس مریض ناتواں کو مزید عطائی ڈاکٹروں کے تجربات سے محفوظ رکھے۔۔۔۔۔
آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں