تحریک انصاف کا مینار پاکستان جلسہ اور معاشی بحالی کے لیے دس نکاتی ایجنڈا 253

پاکستان تحریک انصاف کا مستقبل

پاکستان تحریک انصاف کا مستقبل
شور نہیں شعور
قسط ایک سو چھ
ڈاکٹر زین اللہ خٹک
پی ٹی آئی نے 1996 میں قیام کے بعد عمران خان کی سربراہی میں 6 ممبروں کی مرکزی انتظامی کمیٹی کے ساتھ کام کرنا شروع کیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی انتظامی کمیٹی کے چھ ممبران میں نعیم الحق، احسن رشید، حفیظ خان،مہید حسین،محمود اعوان اور نوشیروان برکی شامل تھے۔ پی ٹی آئی نے 1997 کے عام انتخابات میں نومولود پارٹی کی حیثیت سے حصہ لیا ، حالانکہ پی ٹی آئی عام انتخابات میں ایک بھی نشست جیتنے میں ناکام رہی تھی۔ بہت سارے لوگ تحریک انصاف کو چھوڑ کر چلے گئے۔ یہ تحریک انصاف کے لیے سب سے پہلا بڑا چیلنج تھا۔ لیکن عمران خان نے ثابت کیا کہ پی ٹی آئی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے خلاف پاکستانی قوم کے لئے متبادل جماعت ہے۔ کیوں کہ تحریک انصاف ایک نظریاتی تحریک ہے ۔ پی ٹی آئی نے اپنے بچپن کے پہلے انتخابات میں یہ ظاہر کیا کہ مستقبل میں پی ٹی آئی حکمران جماعتوں کے خلاف تیسرا چہرہ ہوسکتی ہے۔ 2002 میں عام انتخابات میں دوسری مرتبہ پی ٹی آئی نے عام انتخابات میں حصہ لیا اور میانوالی سے عمران خان نے قومی اسمبلی کی ایک نشست اور کرک سے میاں نثار گل کاکاخیل نےکے پی اسمبلی میں ایک نشست حاصل کی۔ پی ٹی آئی نے 18 فروری 2008 کے عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ یہ تحریک انصاف کے لیے دوسرا بڑا چیلنج ثابت ہوا کیونکہ عین الیکشن کے وقت بائیکاٹ کی وجہ سے بہت سارے لوگوں نے تحریک انصاف کو خیر باد کہہ دیا ۔ لیکن عمران خان نے ازسر نو تحریک کو منظم کرنا شروع کردیا ۔ کیوں کہ 1996 کے نوجوان اب ووٹرز بن چکے تھے ۔اب یہ نوجوانوں کی مقبول پارٹی بننا شروع ہوئی ۔ عمران خان نے ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی این آر او (قومی مفاہمت آرڈیننس) متعارف کرانے کے فیصلوں کی مخالفت کرنے کے سبب عام انتخابات 2008 کا بائیکاٹ کیا۔ کیوں کہ قوم کے بڑے مجرموں کو این آر او کے زریعے سے معافی دی گئی ۔ کیوں کہ تحریک اقتدار کے لیے نہیں بنائی جاتی ہے بلکہ تحریک کا مقصد عوام کو مافیاز سے نجات دلانا تھا ۔پی ٹی آئی کی مقبولیت کا بنیادی نکتہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں بدعنوانی ، سیاست کی نوعیت ، جمہوری اصولوں ، نوجوانوں کی شرکت اور سیاسی سرگرمیوں میں سوشل میڈیا کا کردار ہے۔ پاکستان میں سیاسی جماعتیں ذاتی نوعیت کی ہیں پارٹیاں خاندانی لیمیٹیڈ کمپنیاں بن چکی ہیں۔ پارٹیوں کو ذاتی حیثیت دینے کی وجہ سے پارٹیوں کے اندر جمہوری ثقافت کے مواقع کم ہیں لہذا ، پاکستانی سیاسی جماعتیں سیاسی جماعتوں کے بجائے قبائلی اور ثقافت پر مبنی گروہ دکھائی دیتی ہیں۔ لہذا سیاسی جماعتوں سے مایوس قوم نے عمران خان اور تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنا شروع کر دی ۔ پی ٹی آئی نے یو سی سطح سے لے کر مرکز ی سطح تک عوامی ووٹوں پر انٹرا پارٹی الیکشن کروائیں ۔ اس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کی صفوں میں نئی اور نوجوان قیادت ابھر کر سامنے ائی۔تحریک انصاف کے ایجنڈے اور نظریہ کو فروغ دینے میں نوجوانوں نے نمایاں کردار ادا کیا۔ 10 اپریل کے بعد جس طرح تحریک انصاف کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے ۔ جس طرح تحریک انصاف کے خلاف ریاستی اداروں اور وسائل کا استعمال کیا جارہا ہے ۔ اس پر ہر جمہوری شحض افسوس کرتا ہے ۔ 9 مئی کے دن ملک کے منتخب سابق وزیر اعظم عمران خان کو جس طرح کالر سے پکڑ کر ہائی کورٹ کے اندر گرفتار کیا گیا ۔ جس کیس میں گرفتاری ہوئی ۔ اس میں انوسٹی گیشن نہیں ہوئی اور جلد بازی میں گرفتاری کا آرڈر یکم مئی چھٹی کے دن جاری کیا گیا اور عمران خان سے اس آرڈر کو 8 دن خفیہ رکھا گیا ۔ اس گرفتاری پر ملک بھر میں ورکروں نے آئین پاکستان کے دیئے گئے حق کے مطابق احتجاج کیا ۔ لیکن پولیس اور رینجرز نے پرامن مظاہرین پر تشدد اور ٹارچر کا استعمال کیا جس سے اندازاً 51 بے گناہ ورکر شہید ہوگئے ۔ ان واقعات کی آڑ میں پاکستان تحریک انصاف کے خلاف ریاستی اداروں کا رویہ نہایت غیر قانونی اور جارہانہ رہا ۔ تقریباً 10 ہزار کے لگ بھگ تحریک انصاف کے ورکروں کو ملک بھر میں گرفتار کیا گیا ۔ عورتوں اور بچوں کو بھی معاف نہیں کیا گیا ۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں کو زبردستی تحریک انصاف چھورنے پر مجبور کیا گیا ۔ جس طرح سے پریس کانفرنس ہوئی ۔ شاید کسی جمہوری معاشرے میں اس طرح لوگوں کو زبردستی پارٹی سے نکالا گیا ہو ۔ لیکن اس کے باوجود بھی تحریک انصاف کاووٹ بنک متاثر نہیں ہوا ۔ حالیہ مختلف اداروں کی طرف سے کئے گئے سروے رپورٹس کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کا ووٹ بنک قائم ہے ۔ پاکستان میں تقریباً 12 کروڑ ووٹرز ہے جن میں تقریباً 6 کروڑ ووٹ کا حق استعمال کرتے ہیں ۔ ان 6 کروڑ میں سے تقریباً 3 کروڑ سے زائد ووٹرز تحریک انصاف کے حق میں ووٹ کا استعمال کریں گے ۔ کیوں کہ تحریک انصاف محض ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک تحریک ہے ۔ جس کا مقصد پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا ہے ۔انہوں نے جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی تو پیپلز پارٹی کے سارے رہنما اور ورکرز پارٹی کو چھوڑ گئے ۔ جب نواز شریف کے خلاف پرویز مشرف نے طاقت کا استعمال کیا تو ساری پارٹی مسلم لیگ ق بن گئی ۔ لیکن طاقت کے زور پر پارٹیوں کو توڑا نہیں جاسکتا ہے ۔ رہنماؤں کو زبردستی پارٹی سے نکالا گیا ۔ لیکن ورکرز آج مستحکم ہیں ۔ کیوں کہ تحریک انصاف کے ووٹرز تعیلم یافتہ اور تربیت یافتہ ہیں ۔ عمران خان صرف ایک سیاسی لیڈر نہیں بلکہ ایک بہترین استاد بھی ہیں ۔ جس نے قوم کو سیاسی شعور دیا ۔ ایک ایسی سیاسی جماعت کو جو نظریہ پر قائم ہو ان کو توڑا نہیں جاسکتا ہے ۔ آج حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ اگر عمران خان کسی کھمبے کو بھی ٹکٹ دے گا تو وہ جیتے گا کیونکہ عوام ووٹ عمران خان کو دیں گے ۔ اسٹیبلشمنٹ کو اس بات پر خاصی مایوسی کا سامنا ہوا ہے ۔ پہلی بار ان کی ساری تدبیریں ناکام رہی ۔ پاکستان تحریک انصاف کے نوجوان تعیلم یافتہ ورکروں کو دبایا تو جاسکتا ہے لیکن ان کو ہرایا نہیں جاسکتا ہے ۔ ان کے پاس ووٹ کی طاقت موجود ہیں ۔ جو الیکشن کے وقت استعمال کرکے عمران خان کو دوبارہ وزیراعظم بنائیں گے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں