Arrival of Mian Muhammad Nawaz Sharif in Saudi 125

انسانی زندگی میں دوستی کی ۔ضرورت اور اہمیت : از قلم: عبدالخالق لک جدہ

انسانی زندگی میں دوستی کی
۔ضرورت اور اہمیت :
از قلم: عبدالخالق لک جدہ

دوستی عام ہے لیکن اے دوست
دوست ملتا ہے بڑی مشکل سے

یہ تو مشہور کہ انسان ایک معاشرتی حیوان ہے شاید بہت آسان لگتا ہے مگر مجموعی طور پر پوری دیانتداری اور سچائی کے ساتھ اسے ثابت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔کسی بھی معاشرتی سطح پر اس کی اہمیت سے قطع نظر ، حقیقت یہ ہے دوسرے لوگوں سے دوستی کرنا ہماری ذہنی صحت کے لئے بہت فائدہ مند ہے۔ہم دوستی کے ذریعہ قریبی رشتوں کو بھی سمجھتے ہیں جو دو یا دو سے زیادہ لوگوں کے درمیان تشکیل پاتا ہے۔ دوستی اور احترام کا رشتہ اعتماد ، پیار ، وفاداری ، ہمدردی اور احترام کے لازمی پہلوؤں سے آراستہ ہوتا ہے ۔دوستی ایک سب سے اہم جذباتی رشتوں میں سے ایک ہے جو خاندانی اور دیگر سماجی تعلقات کے ساتھ جڑا ہوتا ہے ، جو نفسیاتی سطح پر بھی اپنے ساتھ بہت سارے فوائد لاتا ہے۔دوست ہماری زندگی کا ایک بنیادی حصہ ہیں۔ دوسرے لوگوں پر اعتماد رکھنا معاشرتی تانے بانے کی حیثیت رکھتا ہے۔ واصف علی واصف لکھتے کہ “میں جس سے ملا اس کی زندگی کا حصہ بن گیا اور یہ کہ میں کبھی کسی شخص کو اپنی محفل سے خارج نہیں کیا” بلاشبہ نیک و مخلص دوست کسی نعمت سے کم نہیں ، کیونکہ نیک سیرت اور مخلص دوست کے مفید مشوروں، مدد اور معاونت سے زندگی میں کئی طرح کی آسانیاں اور سہولتیں آجاتی ہیں۔ مگر بدقسمتی سے بعض اوقات دوستی اور ملنساری کا لبادہ اوڑھے ایسے لوگ بھی ہمارے اردگرد جگہ بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جن کا باطن آگے زندگی کے کسی موڑ پر ظاہر ہو جاتا ہے مگر کیا ہمیں انہیں اس وقت معاف کر کے اپنے ساتھ آگے بڑھنے کا ایک موقع دینا چاہیے یا تم روٹھے ہم چھوٹے والا فارمولہ اپلائی کرنا چاہیے۔؟؟؟ کیونکہ سیانے یہ بھی کہتے ہیں کہ کھوٹے سکے بھی سنبھال لینے چاہیے کچھ پتہ نہیں کہ کب کام آ جائیں ۔

شرطیں لگائی جاتی نہیں دوستی کے ساتھ
کیجے مجھے قبول مری ہر کمی کے ساتھ

یہاں اسی سوچ کو آگے بڑھانے سے پہلے ہم دوستی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ موجودہ سماجی ، معاشی اور سیاسی حالات کے تناظر میں ہمیں بہت کچھ سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔بعض اوقات سیاسی مخالف نظریات کے حامل دوست ، ہم آہنگ دوستو سے کہیں زیادہ عزت دینے اور بھرم رکھنے والے ثابت ہوتے ہیں ۔موجودہ دور میں جب افراتفری ، انتشار، خلفشار ، باہمی تنازعات کے باعث خونی رشتوں کی قدریں کم ہورہی ہیں، اور دولت تو کہیں شہرت رشتوں کا معیار بنتے جارہے ہیں ، ان گھمبیر حالات نے دوستی کے رشتے کی اہمیت کو مزید بڑھا دیا ہے۔ دوسری جانب ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ اپنے ہم خیال کا ملنا بہت مشکل امر ہوتا ہے ۔

دوست دو چار نکلتے ہیں کہیں لاکھوں میں
جتنے ہوتے ہیں سوا اتنے ہی کم ہوتے ہیں

اس لیے ہمیں بہتر ماحول اور دیرپا تعلقات کے لیے اپنے رویوں میں لچک پیدا کرنا ہی پڑتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ بطور انسان یہ انتہائی اہم ہے۔ اچھے دوستوں کی خاطر جہاں دل میں جگہ بنتی ہے وہیں ان کے لیے رویوں میں بھی جگہ بنانی چاہیے جیسے کہ ہم اکثر کہتے ہیں کہ ایک دوسرے کو ” space” دینے سے ہی رشتے ، دوستی اور تعلقات مضبوط ہوتے ہیں ۔اس لیے اپنے رویوں میں تبدیلی لاتے ہوئے دوستی اور تعلقات میں سپیس دینا ضروری ہو جاتا ہے ۔

جو اعلیٰ ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کر ملتے ہیں
صراحی سر نگوں ہو کر بھرا کرتی ہے پیمانہ

کیونکہ میرے نزدیک دوستی زندگی کے مایوس کن لمحوں میں جینے کی امید دیتی ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہے کہ دوستی بھی انسان کے عزیز ترین رشتوں میں سے ایک رشتہ ہے
ھمارے پڑوسی ملک کے پردھان منتری نے ایک بار دوستی پر پورا خطبہ دے ڈالا۔ بس نقطہ ایک ھی تھا “ہر دور میں ہر انسان کا ایک مخلص اور سچا دوست ھونا چاہیے جس سے دل کی بھڑاس نکال سکیں” جو باتیں ہم والدین، بھائی بہن سے شیئر نہیں کر سکتے ان کا حل اپنے مخلص دوست سے پوچھ سکتے ہیں۔ وہ تمام خوبیاں جو ہم مختلف رشتوں میں علیحدہ علیحدہ ڈھونڈتے ہیں وہ تمام مخلص دوست میں مل سکتی ہیں اور وہ شخص دنیا میں غریب تصور کیا جاتا ہے جس کے پاس مخلص دوست نہ ہو۔ لیکن آج بھی ہمارے معاشرے میں مخلص دوست قدرے مشکل سے مل جاتے ہیں جس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم خود لوگوں کے ساتھ مخلص نہیں رہے اور صرف غرض کے لوگوں سے تعلق رکھنے کو پسند کرتے ہیں۔ ھمارے اپنے سرکل میں شامل ہونے والوں کو آسانی سے پھر جانے کا یو ٹرن نہی ھونا چاہیے اور نہ موقع دیناچائیے
آپ میرے دوست ہیں تو دوست ہیں، اختلافات تعلق کو حسن ہوتے ہیں ، میرے کسی رویہ سے اختلاف ہے تو بات کیجئے ، آپس میں باتیں کرنے سے مسائل حل ہوتے ہیں اور جب سوال اپنے اور جواب بھی اپنے تو پھر اختلافات اور دوریاں جنم لیا کرتی ہیں جن سے ہمارے نااشنا یا ناخیر خواہ ہی فائدہ اٹھاتے ہیں اور بعد میں ہمارے پاس صرف پچھتاوے رہ جاتے ہیں کہ ہائے کاش ہم نے بات کر لی ہوتی ۔ اس لیے دوستی کی اہمیت اور تقاضے سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ اس مشکل دور میں کوئی تو ہو جو میری وحشتوں کا ساتھی ہو والی خواہش زمانے کی بے ثباتی کی نظر نہ ہو جائے۔

اب یہ طے ہوا کا آج پِھر ملاقات کریں گے
برسوں کی دوستی پر پِھر سے بات کریں گے

جاڑیں گے تعلقات سے یوں فاصلوں کی دھول
باتوں میں محو ہو كے صبح سے رات کریں گے

وہ وقت بھی پل صراط تھا جو گزرا تیرے بغیر
اب روشنیوں اور تجلیوں کی برسات کریں گے

جو وسوسوں کی بارشیں تھی اب وہ تھم گئیں
اعتماد کی فضا میں اب ہر بات کریں گے

رواجوں كے گنجلوں میں الجھا ہوا تھا میں
سلجھا كے سب کچھ خوشیوں کو سوغات کریں گے
آخر میں سچی بات یہ ھے ھم تو ٹہریں پردیسی۔ پردیس میں بھی سیاسی کارکن اور خالص بنیے کا روپ دھارے ھوۓ بلکہ اور بھی مزید چہرے سجاۓ ھوۓ
اگر ہرایک سے دوستی کرنے لگ گئے تو سیاسی دشمنی کیسے بنائیں گے اورچمک دمک کیلیے کمائیں گے کیسے ؟

جواب قارئین پر چھوڑتے ہیں؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں