نمیرہ محسن 325

یہ قصہ ہے،محبت کی اک بے مثل داستان کا

یوسف سراج
منقول : سیدہ نمیرہ محسن شیرازی
باقی سب تفصیل ہے۔ صرف تفصیل!
یہ قصہ ہے،محبت کی اک بے مثل داستان کا
اور بے مثل محبت پر مالک کی لازوال عطا کا قصہ!
وہ ایک گمنام بوڑھا شخص تھا، جسے اپنی مادری زبان بلوچی کے علاوہ کوئی اور زبان نہ آتی تھی، عربی تو کجا اسے اردو تک نہ آتی تھی، اس کی ساری زندگی دوسروں کی بکریاں چراتے اک جھونپڑی میں گزری تھی۔ جھونپڑی جو اس کی اپنی زمین پر نہ تھی، سردار کی زمین پر مجبور اور موسموں کی شدت سے شرمسار کھڑی تھی، جھونپڑی بس ایسی تھی کی آسمان سے ساری دھوپ ، ساری گرمی سردی اور بارشوں کا سارا پانی اس میں سے گزر کے بابا جی پر آ برستا تھا۔ بابا مگر اسی میں خوش تھے ، شکوہ کیا ہوتا ہے؟ شائد بابا یہ جانتا بھی نہ تھا، جتنا میسر تھا، اس سے زیادہ کی اسے پروا بھی نہ تھی۔ نہ اس بات کی پروا کہ اس کے پاس پکا چھوڑ موسموں سے بچانے والا کوئی کچا کوٹھا تک تھا، نہ اس کا ملال کہ اس کے پاس زیست کرنے کو معمولی سا سامان بھی نہ تھا، نہ اس کی فکر کہ اس کا روزگار بس اجرت پر دوسروں کی بکریاں چرانا تھا، اس کے سوا کچھ نہ تھا۔ عجیب شخص تھا کہ وہ بکریاں چرانے کی انبیاء کی سنت پر ہی عمل پیرا نہ تھا، اس کے دل میں ایک اور سنت بھی چپکے چپکے پل رہی تھی اور بڑھ رہی تھی، وہ آرزو تھی سوہنے کا گھر دیکھنے کی آرزو، زیارت بیت اللہ کی سعادت پالینے کی انبیا کی سنت۔ نبی کی بستی سے آنکھیں ٹھنڈی کر لینے کی سعادت کی آرزو۔
زاد راہ اس کے پاس کیا ہوتا کہ جس کے پاس زاد زندگی ہی نہ تھا۔ مگر تمنا تھی اور بڑی منہ زور تمنا تھی، وہ بکریاں چراتا رہا، اجرت پر چرائی بکریوں سے اپنے حصے کے بچے وصولتا رہا، جونہی کوئی ایک اور بچہ اس کے حصے میں آتا، اسے لگتا سوہنے کا گھر اس کے نصیبے کے کچھ اور قریب آ لگا ہے۔ وہ ہر ایسے اجرت میں آئے بچے کے ساتھ سوہنے کا گھر دیکھنے کی اپنی خواہش بھی پالتا رہا۔
پھر ایک دفعہ جب تن پر اچھے کپڑے نہ تھے، پاؤں میں مناسب جوتا نہ تھا، جھونپڑی میں موسموں کی شدت روکنے کی موزوں صلاحیت نہ تھی، اس کے پاس بکریوں کی اجرت کے کچھ پیسے جمع ہو گئے۔ تب اس کا چاؤ دیکھا نہ جاتا تھا کہ اس کے دل نے الارم بجایا، سوہنے کا گھر دیکھنے کا ٹائم آ گیا۔ عشق کے امتحان مگر ابھی اور بھی تھے، ابھی محبوب کے ہاں حاضری کا ٹائم نہ آیا تھا انسانیت پر کورونا کا امتحان آ گیا تھا۔ اس نے رضا کی گردن جھکائی اور تمنا بغل میں داب لی، وہ انتظار کی سولی پہ ٹنگ گیا۔ کورونا گزرا تو در محبوب تک جانے کیلئے زاد راہ اور بڑھ گیا تھا۔ اسی دوران اس کے پاس مگر کچھ بکریاں آ گئی تھیں۔ ان بکریوں کا ، عمر بھر کی جمع پونجی کا، زندگی بھر کی محنت کا اور بھلا کیا مصرف ہو سکتا تھا؟ اس نے بکریاں بیچیں اور در یار دیکھنے کو چل دیا۔ نہ ساتھ کوئی ساتھی اور نہ رشتے دار، مگر اس راہ کا ہر مسافر اپنا ہی تو ہوتا ہے۔ ایک تھیلا بغل میں دابے بالآخر اک سویر وہ سوہنے کے مدینے میں کھڑا تھا۔ اسے اپنے نصیبے پر یقین نہ آتا تھا، وہ ڈھلکے کندھوں کے ساتھ بہت آرام سے حرکت کرتا تھا کہ یہ مدینہ تھا، جہاں بایزید بھی سانس گم کر بیٹھیں، وہ مدینہ! بلوچستان کی اک جھونپڑی کا باشندہ مدینے کی شان دیکھ کے دنگ رہ گیا۔
آہ! کہاں فقیر عجم اور کہاں سلطان عرب۔ اسی حیرت میں گم وہ اپنی کل متاع، اپنا جوتے اور جوڑے والا تھیلا بھی گم کر بیٹھا۔ عین یہی وہ لمحہ تھا ،جب وہ کلک ہو گیا۔ جب وہ اپنے تن کے آخری چیتھڑے بھی سوہنے کے در پہ گم کر بیٹھا تھا تو عین یہی وہ لمحہ تھا جب عرش والے کا اس سادہ مزاج محبت کی معراج پر التفات اور قبول عام برس اٹھا تھا۔ عین اسی لمحے آسمانی میڈیا حرکت میں آیا اور ‘صحابہ کے حلیے والا بزرگ ‘ کے نام سے وہ عرب و عجم کے میڈیا پر وائرل ہو گیا۔ گویا جبرئیل کے ذریعے عرش سے اس بندے کے قبول عام اور محبوب عوام و خواص ہونے کا اعلان ہوگیا۔ اب خود اسے معلوم نہ تھا کہ وہ جو اپنے تئیں گم ہوا پھرتا ہے، اس سے زیادہ مدینہ اور اہل مدینہ کی دنیا میں مشہور کوئی نہیں۔ سبھی جانتے ہیں، کوئی تیس لاکھ کے قریب اس بار زائرین ارض مقدس میں تھے، ان میں کروڑ پتی بھی ہوں گے اور ارب پتی بھی، وہاں تین دفعہ کا وزیراعظم بھی تھا اور جانے کون کون رستم زماں، محدث زماں وہاں موجود تھا، جو بھی تھا گمنام ہی تھا، یہاں کا مشہور شخص اور زبان زد عام شخص مگر آج کے دن ایک ہی تھا، اور وہ تھا وہ بابا جو پندرہ سال سے لوگوں کی بکریوں کے ساتھ اپنی ایک تمنا پال کے یہاں آ کے گم ہو گیا تھا۔ وہ بکری پال تھا تو یقینا اس کا مالک بھی تو بڑا لجپال تھا۔ اس نے اسے فرش سے اٹھایا اور عرب و عجم میں نامور کر دیا، تاجروں اور تاج وروں سے زیادہ تاجور کر دیا۔ اب عرب و عجم سے اس بابے کو پکارا جا رہا ہے، میڈیا اور عرب کے مخیر حضرات حج پہ بلانے کو اس کے پیچھے پڑے ہیں۔ ہم تم کی خدا نے ڈیوٹی لگا دی کہ اس کی کہانیاں کہیں اور سنیں، سنیں اور سنائیں۔ سارے پڑھے لکھے اک ان پڑھ کی کہانی سنیں اور سنائیں۔
اللہ اللہ!
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے،
یہ بڑے نصیب کی بات ہے۔
تو صاحبو! عرض کی تھی، یہ قصہ ہے،
محبت کی اک بے مثل داستان کا
اور بے مثل محبت پر مالک کی لازوال عطا کا قصہ! باقی سب تفصیل ہے۔ صرف تفصیل!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں