کیا مسلہء کشمیر حل کئے بغیر بھارت سے تجارت کی جا سکتی ہے 113

سب کو اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا

میری آواز

اعجاز احمد طاہر اعوان پی این پی نیوز ایچ ڈی

آئین پاکستان کے مطابق قومی اسمبلی 342 ممبران پر مشتمل ہے۔ جس میں سے 272 نشستوں پر اراکین براہ راست انتخابات کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں مذہبی اقلیتوں کے لیے 10 اور خواتین کے لیے 60 نشستیں بھی مخصوص ہیں، جنھیں 5 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرنے والی جماعتوں کے درمیان میں نمائندگی کے تناسب سے تقسیم کیا جاتا ہے۔ ملک کے اندر عام انتخابات کے بعد عوام ملکی مفادات کے لیے حقیقی تبدیلی اور صاف ستھری اور عوام دوست سیاست کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے فلور پر آتنی بڑی تعداد میں ممبران کے نزدیک صرف اپنے ذاتی مفادات اور اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کی کاسہ لیسی ہی نظر آتی ہے۔ انتخابات کے بعد برسراقتدار آنے والی حکومت نے عوام کے ووٹوں کے حصول کے لیے عوام کو سنہری خواب دکھائے ہوتے ہیں مگر ہمارے ملک کی گزشتہ 77 سالوں سے یہ بدقسمتی ہے کہ انتخابات کے بعد عوامی نمائندے صرف ذاتی مفادات اور اپنی سیاسی پارٹیوں کے ہی وفادار ہو کر رہ جاتے ہیں۔ کوئی معاشرہ یا پھر ملک اس وقت تک ترقی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا۔ جب تک ملک کی قومی اسمبلی کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے سیاسی لیڈر اپنے ملک اور عوام کے ساتھ مخلص اور سنجیدہ نہیں ہوں گے۔ اس وقت بدقسمتی سے پاکستان بھی لاتعداد سنگین مسائل کے بھنور میں پھنسا ہوا ہے۔ جس میں سرفہرست معاشی بدحالی، اقتصادی کمزوری، بے روزگاری، مہنگائی، بجلی کے ظالمانہ بلوں کی بھرمار، اورغربت کے مسائل ہیں۔ ان تمام مسائل میں اضافہ اور ملک کی مسلسل تنزلی کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ملک کو گزشتہ 77 سالوں کے دوران اب تک مخلص اور محب وطن قیادت نصیب نہیں ہوئی ہے۔ ممبران اقتدار میں تو آ جاتے ہیں مگر ان کے اندر عوام کی خدمت اور ملک کے ساتھ وفاداری دور دور تک نظر نہیں آتی۔ آج تک قومی اسمبلی کے سینکڑوں اجلاس منعقد ہو چکے ہیں مگر ان اجلاسوں کے دوران عوام کو درپیش مسائل پر مگر مچھ کے آنسو تو ضرور بہائے گئے لیکن ان کا کوئی پائیدار حل تلاش نہیں کیا گیا۔ اور یہ کام ہوتا بھی کیوں۔ان کے پاس اپنے مفادات کے چکر سے نکل کر عوام کے لیئے وقت کہاں ہے۔ قصور ہماری عوام کا بھی ہے جو اپنا ووٹ ڈالتے وقت ذرا بھی نہیں سوچتے کہ ووٹ کی کیا اہمیت ہے اور ان کے ووٹ کا حقدار کون ہے؟ روز اجلاس تو ہوتے ہیں مگر سب بے سود اور بے مقصد؟ اسمبلی کےتمام ممبران اپنے مفادات اور اپنی سیاسی پارٹیوں سے وابستگی کو پورا کر رہے ہیں۔ آخر وہ وقت کب آئے گا جب اس مفاد پرست ٹولے سے ملک اور قوم کی جان چھوٹے گی؟ ملک کی اسمبلیوں کے اندر حکومتی مراعات کا بے دریغ استعمال تو کرتے ہیں مگر یہ سیاستدان اگر کبھی مجبورا سڑکوں پر آتے بھی ہیں تو صرف اپنے سیاسی مفادات کی خاطر نہ کہ عوام کی مشکلات کے درد میں۔ بدقسمتی سےاب عوام کے مسائل کے حل کے تمام دعوے ایک خواب ہی بن کر رہ گئے ہیں۔ اور ان ممبران کے خلاف کوئی عدالت موثر احتساب کرنے کے قابل نہیں ہے۔ اس وقت معاشرے کے اندر دہشت گردی، ڈکیتی اور دیگر کئی مسائل جنم لے چکے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ یہ سیاستدان اپنے گریبان کے اندر جھانکیں۔ باعث افسوس یہ پہلو بھی ہے کہ ملک کے اندر حقیقی جمہوریت کب اور کس طرح آئے گی؟ ہمارے ہاں تو شخصیت کو ہی جمہوریت کا نام دیا جاتا ہے۔ ملک کے اندر برائے نام جمہوریت رہ گئی ہے۔ اس وقت ملک کے سیاست دان نہ ہی ملک اور نہ ہی عوام کے ساتھ مخلص ہیں۔ صرف مفادات کی ہی سیاست ہو رہی ہے۔ اپنے ملک کو اس نہج تک پہنچانے میں صرف سیاست دان ہی نہیں عوام بھی کافی حد تک ذمہ دار ہیں جو ان پیشہ ور سیاستدانوں کو منتخب کرتے ہیں۔ عوام اس وقت کہاں کھڑے ہیں، عوام اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کب اور کس طرح کریں گے۔۔۔
شدت کے ساتھ یہ سوال تو بنتا ہے۔۔۔۔!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں