☆☆☆ میری آواز ☆☆☆
ڈاکٹر عافیہ صدیقی حصول انصاف کی متلاشی!
کالم نویس/اعجاز احمد طاہر اعوان
ڈاکٹر عافیہ صدیقی بنت حوا ، حکمرانوں کی بے حسی اور 23 کروڑ سے زائد عوام سے انصاف کی متلاشی بن کر اتنا زندگی کی جنگ لڑ رہی ہے اس امید پر کہ مجھے انصاف کب اور کون دلائے گا؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے کہ جس کی تکمیل۔کی منتظر ڈاکٹر عافیہ صدیقی یہودی لابی کے ظلم و ستم اور بر بریت اور درندگی کا نشانہ بنی ہوئی ہے، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی سال 2008 کے دوران بگرام افغانستان کے امریکی ٹارچر سیل میں موجودگی ظاہر ہو گئی تھی، اور یہ عمل غیر قانونی اور حکمرانوں کی ملی بھگت سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بے گناہی کو پوری دنیا تسلیم بھی کر رہی ہے، مگر اس وقت کے حکمران اگر چاہتے تو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی وطن واپسی یقینی تھی مگر مگر یہ موقع بھی حکمرانوں نے گنوا دیا، سال 2013 کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف نے برسراقتدار آ کر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ عصمت صدیقی سے ملاقات کی اور عافیہ صدیقی کو 100 دن کے اندر واپس لانے کو وعدہ بھی کیا مگر صد افسوس کہ چار سال تک پوری قوم نواز شریف سے اپنا وعدہ پورا کرنے کا پر زور مطالبہ کرتی رہی مگر یہ خواب اور 22 کروڑ عوام کی خواہشات کو پورا کرنے میں کامیابی حاصل نہ ہو سکی؟
انسانی حقوق کے نامور وکیل ڈاکٹر اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے وکیل کلائیو سیفورڈ اسمتھ جب پاکستان کے دورے پر آئے تو انہوں نے پوری قوم کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی اور وطن واپسی کے معاملے پر ایک امید کی کرن تو دکھا دی مگر اس کرن کا سورج آج تک نمودار نہ ہو سکا؟ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا کیس انسانی حقوق کی کھلی کھلا خلاف ورزی اور بدترین فعل ہے، جس کی پوری دنیا کے اندر مثال ملنا مشکل ہے، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو تو یہ بھی علم نہی ہے کہ آخر وہ کش جرم کی سزا بھگت رہی ہے اور ظلم اور بر بریت کے خلاف تنہا اپنی جنگ بھی لڑ رہی ہے؟ اگر پوری قوم کے اندر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا درد ہوتا تو اب تک وہ رہائی کے عمل سے گزر چکی ہوتی مگر اس وقت کے حکمرانوں نے ملک کی بیٹی کو درندوں کے حوالے کر دیا؟ اور آج بھی اپنی بے گناہی کی سزا تنہا بھگت رہی ہے اس امید پر کہ اللہ تعالی کی ذات ہی میرے ساتھ انصاف کرے گئی؟ ملک کی محب وطن پارٹی جماعت اسلامی کی کوششوں سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی اور امید کی نئی کرن دو دہائیوں کے بعد نظر آئی ہے، وہ پوری قوم اور امت اسلامیہ کے درد دل رکھنے والے انسانوں کی طرف پر امید نگاہوں سے دیکھ تہی ہے کہ آخر میری رہائی اور مدد کا حقیقی سورج کب اور کیسے طلوع ہو گا؟ ڈاکٹر عافیہ صدیقی گزشتہ دو دہائیوں سے ملک کے بے حس حکمرانوں کی نظر کا نشانہ بھی بنی ہوئی ہے،
ڈاکٹر عافیہ صدیقی ایک محب وطن بیٹی ہے اور وہ اپنے ملک پاکستان اور عوام سے بےحد محبت کے جذبات بھی رکھتی ہے، انہیں کئی بار امریکی شہریت دینے کے لالچ بھی دئے گئے مگر ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے ہر بار اس سازشی آفر کو یکسر قبول کرنے سے انکاری کی، وہ آج بھی پاکستان کے اندر ناقص نظام تعلیم کی۔مذمت اور مخالفت کرتی ہے، ملک کے اندر فرسودہ نظام تعلیم کو یکسر تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے؟ اور اسلام ہی مکمل طور پر پاکستان کی ضرورت ہے، اس کے علاوہ کوئی دوسرا نظام تعلیم پاکستان کے فرسودہ نظام کو ہرگز قبول نہی ہو گا، اگر زندگی رہی تو ایک دن وہ اپنے اس فلسفے کی تکمیل میں ضرور کامیابی سے ہمکنار ہو گئی،
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو سال 2003 کے دوران پاکستان کی ملی بھگت سے امریکی حکام کر دیا گیا، اور آج اکیلے اور تنہا ڈاکٹر عافیہ صدیقی امریکی حکام۔کے مظالم کو برداشت کر رہی ہے، یہ سب مظالم اور بربریت انسانیت کے نام پر ایک سیاہ دھبہ بھی ہے، بر بریت کے باعث ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی سننے کی صلاحیت سے بھی محروم ہو گئی ہے، ان کو بڑی طرح انسانیت سوز مظالم۔کا بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے اور پوری دنیا کے مسلمان اور ملک کے حکمران اپنی آنکھوں کو بند کئے ہوئے ہیں، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی۔نظریں آج بھی اس امید کے سہارے کھڑے اور مشکل ترین زندگی گزار رہی ہے کہ اللہ کی ذاتی مجھے ضرور ایک دن انصاف دے گئی، وہ آج بھی ملک کے بے ضمیر حکمرانوں کو جھنجوڑ رہی ہے اور یہ سوال کر رہی ہے کہ۔کیا میں۔پاکستان کی بیٹی نہی ہوں؟ ان حکمرانوں کو بھی اللہ نے بیٹیوں سے نوازا ہوا ہے، میں نے اپنی قسمت کا فیصلہ اللہ کی عدالت کے سپرد کر دیا ہے، اور جامع اسلامی کی کوششوں سے ایک دن میں اس یہودی لابی اور ظالم حکمرانوں کی جیل سے ضرور آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاوں گئی؟