کالم نویس محمد امانت اللہ۔ جدہ،پی این پی نیوز ایچ ڈی
شیر شاہ سوری برصغیر کا نامور بادشاہ تھا۔ اس نے کابل سے لے کر کلکتہ تک مشہور زمانہ جی ٹی روڈ بنوائی تھی۔
یہ سڑک پاکستان اور ہندوستان میں آج بھی موجود ھے
ایک دفعہ اسکا بیٹا شہر سے باہر گھوڑے پر جا رہا تھا۔ اسکی نظر ایک عورت پر پڑی جو نہا رہی تھی۔
اسکی خوبصورتی اور حسن کے چرچے پورے گاؤں میں مشہور تھے
وہ ایک غریب کسان کی بیوی تھی۔
بادشاہ کا بیٹا اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور اسکی طرف بُری نظر سے بڑھا ہی تھا کہ اس کا شوہر آگیا۔
اسنے مزاحمت کرنے کی کوشش کی بادشاہ کے بیٹے نے بدنامی کے ڈر سے اس پر جان لیوا حملہ کر دیا اور وہاں سے فرار ہو گیا۔
زخمی کسان نے فیصلہ کیا شیر شاہ سوری کی عدالت میں فریاد کرے گا کہ آپکے بیٹے نے ہمارے ساتھ ظلم کیا ھے۔
وہ عدالت میں پہنچا اور سارا ماجرا بادشاہ کے گوشگزار کر دیا.
بادشاہ غصہ کو قابو میں نہ رکھ سکا اور حکم دیا جاؤ میری بہو کو برہنہ کر کے یہاں لاؤ
فریادی خوف زدہ ہو گیا اور بادشاہ سے التجا کی میں اپنی شکایت واپس لیتا ہوں.
بادشاہ نے کہا ہرگز نہیں قانون اور انصاف سبھوں کے لیے ھے.میرے بیٹے نے جرم کیا ھے اسکو بھی سزا ملے گی۔
اس واقعہ کا ذکر انگریز گورنر نے اپنی کتاب میں کیا ھے۔
وطن عزیز میں انصاف کے رکھوالوں اور وطن کے محافظوں کی موجودگی میں جو کچھ عثمان ڈار کی والدہ اور جمشید دستی کی بیوی ساتھ ہوا
ہر طرف سب اچھا ھے کی صدائیں آرہی ہیں زرخرید میڈیا کی طرف مگر حقیقت شکر برعکس ھے۔
ناجانے کتنے ہی غریبوں کی عزتیں پامال کی گئی ہوں گیں۔ وہ لوگ خوف اور نظام عدل کو دیکھ کر خاموش ہو گئے ہوں گے۔
شہباز گل اور اعظم سواتی کے ساتھ جو کچھ ہوا اب یہ نارمل سی بات لگتی ھے۔
جب نقاب پوش کالی گاڑی میں آتے ہیں، وہاں کے مکین سمجھ جاتے ہیں.
آج پھر قیامت برپا ہونے والی ھے۔
ظلم کا نظام چل سکتا ھے مگر ناانصافی کا نہیں۔
افسوس کے ساتھ ملک میں ناانصافی کا راج ھے لوگوں کی عزتیں محفوظ نہیں ہیں ۔ قانون کی حکمرانی نظر نہیں آتی ھے۔
اس طرح گھر نہیں چلتے آپ حکومت چلا رہے ہیں۔