لباس کیا واقعی شخصیت کا آئینہ دار ہے……….
تحریر۔ جویریہ اسد
جب ہم کسی نئے شخص سے ملتے ہیں، تو عام طور پر ہماری پہلی نظر ان کی ظاہری شکل و صورت اور لباس پر ہوتی ہے، اور ہم فوراً ان کے بارے میں رائے قائم کر لیتے ہیں۔ بدقسمتی سے، ہمارے معاشرے میں مشرقی اور مغربی لباس کے حوالے سے ایک مخصوص ذہنیت پائی جاتی ہے۔ مسلمان ہونے کے ناطے، ہم اکثر ایک ایسی عورت کو جو حجاب نہیں پہنتی، حالانکہ اس کا لباس مہذب ہوتا ہے، غیر مذہبی یا دین سے دور سمجھ لیتے ہیں۔ اسی طرح، اگر کوئی عورت حجاب، نقاب یا عبایا پہنے ہو تو ہم فوراً اسے نیک اور دین دار مسلمہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔
لباس کا انتخاب ہر انسان کا بنیادی حق ہے جس میں موسم، شہر، کمیونٹی، تہوار، سفر ،ملازمت اور تعلیم کے حصول کے حوالے سے تبدیلی آسکتی ہے۔
ہم شاذ و نادر ہی کسی شخص کے مذہبی اورسماجی خیالات یا عقائد کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، اور اس کے لباس کو دیکھ کر اس کے دین کے بارے میں فیصلہ سنا دیتے ہیں۔ یہی طرز عمل مردوں کے ساتھ بھی اپنایا جاتا ہے۔ اگر کوئی مرد کلین شیو ہو، تو ہم اکثر اسے دین سے دور سمجھتے ہیں، لیکن داڑھی والے مرد کو فوراً دین دار اور نیک تصور کر لیا جاتا ہے۔ میں ہر گز بھی دین کی لباس کے حوالے سے کی گئی تشریح پر کوئ سوال اٹھانے کی جسارت نہیں کر رہی ، لیکن میرا ایک نقطۂ نظر یہ بھی ہےکہ ہمیں ہر انسان کے انفرادی عقائد اور خیالات کا بھی احترام کرنا چاہیے۔ لباس کی بنیاد پر شخصیت کو جانچنا دانش مندی نہیں ہے۔ ایک فیشن ایبل شخص بھی دین کے بارے میں زیادہ علم اور بہتر فہم رکھ سکتا ہے، جبکہ روایتی لباس پہننے والا ہمیشہ دین کا گہرا علم نہیں رکھتا۔
یہ بھی عام تصور ہے کہ جو عورت مکمل نقاب میں ہو اور اسلام و سنت پر بات کرے، وہی ایک کامل مسلمہ ہے۔ میں اس نظریے سے اختلاف کرتی ہوں۔ صرف لباس کسی شخص کے دین داری یا اس کی نیت کا تعین نہیں کرتا۔ بدقسمتی سے، میں نے خود بھی کچھ خواتین کے بارے میں اسی بنیاد پر غلط رائے قائم کی۔ میں نے اپنی زندگی میں کچھ ایسی خواتین سے ملاقات کی جنہوں نے عالمہ ہونے کا دعویٰ کیا، لیکن ان کے کردار میں دھوکہ دہی، بے ایمانی اور دوغلا پن پایا گیا۔ ابتدا میں، میں نے ان کی مذہبی گفتگو اور لباس پر بھروسہ کیا، لیکن بعد میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ کچھ جدید لباس پہننے والی خواتین اخلاقیات اور اصولوں کے لحاظ سے ان سے کہیں بہتر تھیں۔ لیکن ہم ان خواتین کو صرف ان کے لباس کی بنیاد پر نظر انداز کر دیتے ہیں۔
یہ رویہ صرف غلط ہی نہیں بلکہ غیر منصفانہ بھی ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ہر شخص اپنی انفرادی حیثیت میں اہمیت رکھتا ہے۔ دین داری صرف لباس تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ اعمال، نیت، اور اخلاقیات میں ظاہر ہوتی ہے۔
ساتھ ہی، یہ بات بھی اہم ہے کہ ہم اپنے منتخب کردہ لباس اور اس کی نمائندگی کرنے والی اقدار کا احترام کریں۔ میں نے سترہ سال سے حجاب پہنا ہے، اور اگر میں اپنے اس لباس میں کسی نامناسب جگہ، جیسے نائٹ کلب یا ڈانس پارٹی، میں جاؤں تو یہ میرے لباس اور اس کے پیچھے موجود مذہبی اصولوں کی بے حرمتی ہوگی۔ حجاب نہ صرف حیا اور عاجزی کی علامت ہے بلکہ ایک مذہبی عزم کی نمائندگی بھی کرتا ہے۔ ہمارے اعمال کو ان اصولوں سے ہم آہنگ ہونا چاہیے جن کی ہمارے لباس نمائندگی کرتے ہیں۔ اسی طرح، ایک غیر مہذب لباس والی عورت مسجد میں داخل نہیں ہو سکتی، کیونکہ یہ اس مقدس جگہ کے تقدس کے خلاف ہوگا۔
ترکی میں، میں نے مشاہدہ کیا کہ غیر ملکیوں کو، جو مناسب لباس نہیں پہنے ہوئے تھے، آیا صوفیہ مسجد میں داخل ہونے کے لیے مکمل طور پر جسم کو ڈھانپنے کے لیے کہا گیا تاکہ اس کی مذہبی عظمت کو برقرار رکھا جا سکے۔
ہمارا لباس ہماری شخصیت کا ایک پہلو تو ظاہر کرتا ہے، لیکن یہ ہماری مذہبی عقائد، نیت اور ایمان کی مکمل عکاسی نہیں کرتا۔ ہمارا کردار، رویہ، اور اخلاقیات اصل میں ہماری پہچان ہیں۔ ہمیں اپنے اعمال کے ذریعے ثابت کرنا چاہیے کہ ہم کیسے انسان اور مسلمان ہیں۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے: “الفاظ سے زیادہ اعمال اہم ہیں۔”
مزید یہ کہ، ہمیں لوگوں کے لباس پر فیصلہ دینے سے گریز کرنا چاہیے اور ان کے دل اور نیت کو دیکھنا چاہیے۔ ایک شخص کے اخلاق، سچائی اور انسانیت کے ساتھ برتاؤ اس کے ایمان کا اصل معیار ہیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم دوسروں کو عزت دیں، ان کے خیالات کو سمجھیں، اور ان کے کردار کو ان کے ظاہری پہناوے کے بجاۓ ان کے لوگوں کے ساتھ معاملات اور اخلاقی برتاؤ سے جانچیں۔