Cover Syed Fayaz Hussain Gilani 151

‛‛ پردہ پوشی ‛‛ تحریر: سید فیاض حسین گیلانی

تحریر : سید فیاض حسین گیلانی
؛ ‛‛ پردہ پوشی ‛‛ سابق وزیر اعظم عمران خان نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں یہ کہا ہے کہ ہمارے ملک کی اکثریت اٹھائیس سال یا اس سے کم عمر نوجوان آبادی پر مشتمل ہے۔اس وجہ سے نیشنل میڈیا اور سوشل میڈیا پر کسی بھی قسم کے گند کو پھیلانے سے گریز کیا جائے۔ کیونکہ اس سے نوجوان نسل کی سوچ اور اخلاق پر برا اثر پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے کسی بھی قسم کی ذاتی کردار کشی اور عیب گوئی کو قران کی روشنی میں بالکل غلط قرار دیتے ہوئے یہ کہا کہ یہ سب ایک لحاظ سے قرانی حکم کے خلاف ہے۔ اب خان صاحب کے الفاظ کچھ بھی ہوں لیکن اس کا مفہوم یہی بنتا ہے۔ اور یہ گفتگو عمران خان صاحب نے گذشتہ چند دنوں میں ان سے وابسطہ کچھ آڈیوز ٹیپ کے حوالے سے کی ہے کہ جن ٹیپس میں عمران خان ملک کی کچھ معروف خواتین سیاستدانوں سے بذریعہ ٹیلی فون ہم کلام تھے۔اور یہ فون کالیں انتہائی غیر اخلاقی اور فحش تھیں۔ ویسے تو یہ بات اصولی طور پر صیح ہے کہ عمومی اخلاقیات کے تحت کسی بھی شخص کی ذاتی ذندگی و نجی معملات میں مداخلت اور وہ بھی کسی حکومت یا سرکاری محکمحہ کی جانب سے سو فیصد غلط ہے۔ اور عمران خان کا اس کو خلاف دین قرار دینا بالکل درست بات ہے۔ کیونکہ عمومی اخلاق کے علاوہ بھی ہمارے دین نے اس حرکت سے منع کیا ہے کہ آپ کسی کی نجی ذندگی کی ٹوہ لگاتے رہیں۔ اور کسی بھی شخص کے ذاتی کردار میں موجود خامیوں کو جاننے کا نہ صرف تجسس پیدا کریں بلکہ اس کو دوسرے لوگوں میں پھیلاتے پھریں۔ اسلام نے بیشک نجی ذندگی کو بہت تحفظ دیا ہے اور نہ صرف کسی کی ذاتی ذندگی میں جھانکنے سے منع کیا ہے بلکہ یہ بھی نصیحیت کی ہے کہ اگر اتفاقاً یا غیر ارادتاً آپ کو کسی دوسرے شخص کی کسی کجی کمذوری یا گناہ سے آگاہی ہو گئی ہے اور وہ گناہ اس شخص کی ذات تک محدود ہے تو کوشش کریں کہ اس پر پردہ ڈالیں۔ تبھی کہا گیا کہ آپ مخلوق کے گناہوں پر پردہ ڈالیں خدا آپ کے گناہوں پر پردہ ڈالے گا۔ بہرحال یہ تو ایک عمومی بات ہے کہ جس پر ہم سب لوگوں کو عمل کرنا چاہئے لیکن جس تناظر میں عمران خان صاحب نے یہ بات کی ہے اسکے کچھ مذید پہلو بھی ہیں۔ مثال کے طور پر یہ الزام کسی عام شہری سے وابسطہ نہیں۔ بلکہ اس میں اس شخص کی ذات ملوث ہے کہ جو نہ صرف اس ملک کا وزیراعظم رہا ہے بلکہ آج بھی ایک مقبول ترین سیاستدان ہے اور ممکنہ طور پر آئیندہ ایک سال کے بعد یہ دوبارہ وزیراعظم بن سکتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جو اخلاقی معیار ایک عام شہری واسطے ہے کیا وہی معیار ایک اسلامی ریاست کے سربراہ واسطے ممکن ہو سکتا ہے۔ ہمارے خیال میں اسلام بالکل اس کی اجاذت نہیں دیتا۔ بلکہ اسلام کیا آج مغرب کی تہذیب دیکھ لیں جنسی معملات میں تو مغرب نے مکمل طور پر اپنی اقدار کو تبدیل کر دیا ہے۔ اور وہاں جنسی آزادی اپنی انتہاء پر ہے۔ کسی باپ کو بھی اجاذت نہیں کہ وہ اپنی بیٹی کو منع کر سکے۔ بلکہ اکثر گھرانوں میں جوان بیٹی بیٹے اپنی گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کو بالکل نارمل انداذ میں گھر لے آتے ہیں اور انکا تعارف بھی بہت نارمل انداذ سے کرواتے ہیں۔ وہاں بیشمار اکلوتی مائیں ہیں کہ جن کو بچوں کے باپ کا بھی پتا نہیں اور ایسے ناجائز بچوں اور انکی ماؤں کو معاشرہ تسلیم کرتا ہے لیکن وہاں بھی اگر ان کا صدر یا وزیر اعظم کسی معمولی سی بھی اخلاقی کمذوری کا شکار ہو تو وہ اسکو قطعی برداشت نہیں کرتے۔ اور مغرب کے کتنے ملکوں میں ان کے سربران کو اس پاداش میں نہ صرف سرعام معافیاں مانگنا پڑھی بلکہ بعض کو کرسیوں اور کچھ کو ہمیشہ واسطے سیاست سے ہاتھ دھونا پڑے۔ سو اس حوالے سے دیکھا جائے تو جس نے یہ آڈیو لیک کی اس کا جرم تھا یا نہیں اس بات سے قطع نظر عمران خان کو اس پر ایک ٹھوس اور واضح موقف دینا چاہئے۔ یا تو ان کو کھلے عام اس گناہ کا اعتراف کر کے معافی مانگنی چاہئے اور یا پھر واضح تردید کرنا چاہئے۔ اور تردید کی صورت میں ان آڈیوز کا فرازنک کروانے کا مطالبہ کرنا چاہئے۔ لیکن اب تک کی پیش رفت کے نتیجے میں یہ بات صیح معلوم ہوتی ہے کہ یہ آڈیو نہ صرف صیح ہیں بلکہ باعث شرم ہیں۔ کہ ستر سالہ شخص کہ جو ملک کا سابقہ وزیراعظم بھی ہے۔ایک بہت بڑی سیاسی جماعت کا سربراہ ہے۔ ملک کا مقبول عوامی لیڈر ہے وہ اس مکروہ حرکت میں ملوث ہے بلکل ایک ٹین ایجر لڑکے کی طرح۔ سو محض یہ کہہ کر کے ہمارے دین نے ان معملات میں پردہ پوشی کا حکم دیا ہے اس وجہ سے عوام اور ادارے خاموشی اختیار کریں ممکن نہیں۔اب اس کا ایک اور پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ خان صاحب نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ مذہب کو بطور سیاسی ہتھیار بہت بے رحمی سے استمعال کیا ہے۔اتنا کہ شاید اب تک کسی مذہبی اور دینی جماعت نے بھی نہیں کیا۔ ریاست مدینہ کا بار بار ذکر سیرت رسول ص کا بیان اور اہل بیت ع و اصحاب رسول رض کے کردار۔ خلفہ راشدین رض کا طرز حکومت۔ اب ان مقدس ہستیوں کا پرچار کرنے والا شخص جب اس اڈھیر عمر میں اس طرح کا رویہ اختیار کرے تو اس سے اسکی واضح منافعقت ظاہر ہوتی ہے اور اب خان صاحب خود فیصلہ کرلیں کہ منافعق بارے اسلام کے احکامات کیا ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور بات بھی قابل غور ہے کہ اگر بالفرض یہ بات تسلیم کر بھی لی جائے کہ خان صاحب بشری کمذوری کا شکار ہو سکتے ہیں لیکن اپنی نیت میں بہت سچے ہیں تو پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ خان صاحب خود اس پر عمل کیوں نہیں کرتے۔ یعنی اسلام کے پردہ ڈالنے کے حکم کی خلاف ورزی خود کس حثیت میں فرماتے ہیں۔ وہ خود ایک سانس میں تین مرتبہ اپنے سیاسی مخالفین کو گالیاں دیتے ہیں دنیا جہاں کے الزامات لگاتے ہیں۔ چور ڈاکو سمگلر بیشرم بے غیرت مجرم کے الفاظ ان کا تکیہ کلام بن چکے ہیں۔ عمومی طور پر سیاستدان چند غیر اخلاقی الفاظ جلسہ عام اور خاص کر انتخابی جلسوں میں ادا کر دیتے ہیں لیکن پاکستان کی عوام بلکہ دنیا نے دیکھا کہ خان صاحب وزیراعظم بننے کے بعد بھی تواتر سے مخالفین کی کردار کشی کرنے کے ماہر رہے۔ جلسہ عام تو دور خان صاحب اسمبلی فلور ہو یابیرون ملک پاکستانیوں طلباء فنکاروں التہ کہ علماء دین کی کانفرنسوں میں بھی جب خطاب کرتے تھے توچورڈاکو کا منترہ پڑھتے رہتے تھے۔ اور مخالفین کا نام بگاڑنا تو دور ان کو مذاق بنانا اپنا حق سمجھتے رہے۔ بلکہ اب تک خان صاحب کا رویہ وہی کا وہی ہے۔ بلاول کا جنس کی بنیاد پر مذاق آپ نے بنایا۔ مریم شریف کا نانی جیسے مقدس رشتہ کے حوالے سے تمسخر آپ نے اڑایا۔ مولانا فضل الرحمن کوڈیزل اسفند یار ولی کو ایزی لوڈ آصف ذرداری کو قاتل پرویز الہی کو ڈاکو حمزہ شریف کو ککڑی اور شریف برادران واسطے خدا معاف کرے آپ نے بیغیرت بیشرم بدکردار اور غدار تک کے الفاظ استمعال کئے تو ذراء علماء خاص کر مولانا طارق جمیل سے اس بارے معلومات لےلیں کہ اسلام کا اس بارے کیا حکم ہے۔ آپ دوسروں پر کھل کر جھوٹے سچے الزامات لگائیں ان کی ذاتی کردار کشی کریں مگر آپ واسطے یہ مسلہ نہیں لیکن جب آپ کی غیر اخلاقی آڈیو ویڈیو لیک ہوں تو آپ مذہب کا کارڈ بلکہ بقول قاسم سوری اسلامی ٹچ دیں۔ نہیں سر ایسا ممکن نہیں۔ آپ کے سیاسی مخالفین تو رہے ایک طرف آپ تو اداروں کے سربران کی ہتک کرنا اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں۔ آپ نے کچھ صحافیوں اور میڈیا مالکان کو صحافتی طوائف کیا۔ آپ نے عدلیہ کے معزز ججز کو دھمکیاں دی۔ آپ نے فوج کے سربراہ کو میر جعفر و میر صادق کہا۔ آپ نے ایلکشن کمیشن کے سربراہ کو کسی کا پالتو کہا آپ نے نیب کے سربراہ کو ذاتی ملازم کہا۔ تو یہ بتائیں کہ آپ کی یہ دشنام طرازی کس دینی اقدار یا اخلاقی رویے کی عکاسی کرتی ہے۔ خان صاحب ہم بہت دکھ اور تکلیف سے یہ لکھنے پر مجبور ہیں کہ آپ اپنی سیاسی کامیابی واسطے دین جیسے مقدس ترین نظریہ کو بھی بطور ہتھیار استمعال کرنے سے گریز نہیں کرتے۔بہرحال ہم آخر میں اپنی عدلیہ سے یہ اپیل ضرور کرتے ہیں کہ وہ اس طرح کی بے حیا اور اخلاق باختہ آڈیو اور ویڈیو بارے لازمی سیو موٹو لیں یہ آڈیو ویڈیو کسی عام آدمی سے وابسطہ نہیں بلکہ اس کا مرکزی کردار ایک نہایت ہی اہم ترین شخص ہے کہ جو براراست ملک کے بنیادی مفادات اور پالیسوں سے وابسطہ ہے۔ سو اس پر سیو موٹو لیکر ان تمام آڈیو لیکس کا فراذنک کروایا جائے اگر یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان میں سچائی ہے تو جناب عمران خان پر کھلی عدالت میں مقدمہ چلا کر ان کو عبرت کی مثال بنا دیا جائے اور اگر ثابت ہوتا ہے کہ یہ سب ڈیپ فیک کی کارستانی ہے تو پھر بنانے والوں اور سوشل میڈیا پر لیک کرنے والوں کو فوراً گرفتار کر کے عوام کے سامنے لایا جائے۔ کیونکہ ہم یہ سمجھتے کہ اگر تو اس پر پردہ پڑا رہتا تو خیر تھی لیکن اب چونکہ غلط یا صیح یہ بات کھل گئی ہے تو اب اس پر تحقیقات لازم ہوگئی ہے۔ اب اگر اس موضوع کو چھوڑ دیا گیا تو ہم نہ صرف بحثیت قوم خدا کی عدالت میں مجرم ہوں گے بلکہ اس کے اثرات ہماری سیاست پر بھی بہت منفی ہوں گے اور ہماری نوجوان نسل پر بھی یہ بہت غلط اثر ڈال سکتی ہے۔ ہمارے نوجوانوں کے اخلاقی رویوں پر یہ شدید کاری ضرب کا باعث ہو سکتی ہے۔ اور اسکے ساتھ بیشک اس بات کا بھی فیصلہ کیا جائے کہ کیا اس طرح کی کسی بھی نجی شخصیت کی ٹیپنگ کیا ایک قانونی عمل ہے۔ کیا ہماری مجموعی اخلاقی اقدار اور مذہبی احکام کی روشنی میں جائز ہے۔ اور اس پر بھی ایک جامعہ اور تفصیلی حکم جاری کیا جائے۔ تاکہ مستقبل میں ہمیشہ واسطے کم از کم یہ مکروہ حرکت نہ ہو سکے۔
fayazsyed111@gmail.com

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں