مبارکباد کیوں اور کیسے 405

مبارکباد کیوں اور کیسے؟ تحریر منقول اجمل خان صاحب

تحریر منقول اجمل خان صاحب

” ابن آدم مجھے گالی دیتا ہے حالانکہ یہ اس کے لائق نہیں ۔ مجھے گالی دینا اس کا یہ قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹا بنا لیا ہے حالانکہ میں ایک ہوں، بے نیاز ہوں، نہ میں نے کسی کو جنا اور نہ میں کسی سے جنا گیا اور نہ میرا کوئی ہمسر ہے “۔( صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ تفاسیر کا بیان ۔ حدیث 2211)

یہ ایک حدیث قدسی کا حصہ جس میں اللہ تعالٰی نے شکایت کا کیسا پیار بھرانداز اپنا یا ہے۔آقا اپنے بند ے سے، خالق اپنی مخلو ق سے اور مالک اپنے مملوک سے شکوہ کر رہا ہے۔ جس میں دلائل سے مطمئن کرنے کا انداز بھی ہے اور جذبات کو ابھار کر عار دلانے اور شرم کا احساس پیدا کرنے کا اسلوب بھی ۔ ابن آد م کے لفظ سے انسان کو اس کی اصلیت یا د دلا ئی جا رہی ہے کہ تمہارے جد امجد کو میں نے مٹی سے پیدا کر کے شرف انسا نیت سے نوازا، عدم سے وجود بخشا، حسن و خوبصورتی کا اعلیٰ نمونہ بنایا اور مسجو دِ ملائکہ بنا کر رفعت و بلندی کے بام عروج پر پہنچا دیا۔ گو یا یہ کچھ بھی نہیں تھا، میں نے اسے سب کچھ بنا د یا۔ تذکرہ کے قابل بھی نہیں تھا،

لیکن میرے اسی نمک خوار (آدم) کا بیٹا آج اپنے اختیارات اور اپنی حیثیت سے تجاوز کرکے میر ے بارے میں کس قسم کی گفتگو کر رہا ہے؟ اگر یہ اپنے اوپر اور اپنے جدا مجد پر میرے احسانات ہی کو سوچ لے تو ایسی حرکت سے باز رہے ۔ آج یہ مجھے جھٹلاتا ہے، گالی دیتا ہے ۔
’’گالی دینے ‘‘کا مطلب یہ ہے کہ ﷲ تعالیٰ صمد اور بے نیاز ہے، بے مثل اور بے مثال ہے۔ نہ اس کا کوئی باپ ہے اور نہ ہی وہ کسی کا باپ ہے۔ نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ ہی وہ کسی کی اولاد ہے۔ مگر انسان کی ناسمجھی دیکھئے کہ کوئی کہتا ہے کہ عزیر علیہ السلام ﷲ کے بیٹے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام ﷲ کے بیٹے ہیں۔

فرمان باری تعالیٰ ہے :

وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّـهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّـهِ ۖ ذَٰلِكَ قَوْلُهُم بِأَفْوَاهِهِمْ ۖ يُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَبْلُ ۚ قَاتَلَهُمُ اللَّـهُ ۚ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ ﴿۳۰﴾ سورة التوبة
’’ یہودی کہتے ہیں کہ عُزَیر اللہ کا بیٹا ہے، اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔یہ بے حقیقت باتیں ہیں جو وہ اپنی زبانوں سے نکالتے ہیں اُن لوگوں کی دیکھا دیکھی جو ان سے پہلے کُفر میں مبتلا ہوئے تھے۔ اللہ ان کو ہلاک کرے یہ کدھر بہکے جا رہے ہیں۔ ‘‘

قرآن کریم میں ہے :

وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَـٰنُ وَلَدًا ﴿٨٨﴾ لَّقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا إِدًّا ﴿٨٩﴾ تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا ﴿٩٠﴾ أَن دَعَوْا لِلرَّحْمَـٰنِ وَلَدًا ﴿٩١﴾ وَمَا يَنبَغِي لِلرَّحْمَـٰنِ أَن يَتَّخِذَ وَلَدًا ﴿٩٢﴾ سورة مريم
’’ وہ کہتے ہیں کہ رحمٰن نے کسی کو بیٹا بنایا ہے۔ سخت بے ہُودہ بات ہے جو تم لوگ گھڑ لائے ہو۔ قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں، زمین شق ہو جائے اور پہاڑ گر جائیں، اس بات پر کہ لوگوں نے رحمٰن کےلیے اولاد ہونے کا دعوٰی کیا! رحمٰن کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے۔ ‘‘

(میں جب بھی ان آیتوں کو پڑھتی یا سنتی ہوں تو میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتی ہے ۔ آپ بھی اللہ کی بڑائی و کبریائی کا تصور اپنے ذہن میں لاکر ان آیتوں پر غور کریں اور دیکھیں کہ آپ کی بھی یہ کیفیت ہوتی ہے یا نہیں)۔

یہ اتنی بڑی گالی ہے‘ اللہ پر اتنا بڑا بہتاں اور اللہ کو اتنا زیادہ غصہ دلانے والا ہے کہ ’’ قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں، زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں‘‘

پوری عیسائی دنیا اس گناہ ِعظیم میں تو ملوث ہے ہی لیکن افسوس اور تعجب ہے اُن مسلمانوں پر جو صرف اغیار کو خوش کرنے کیلئے انہیں کرسمس کی مبارکباد دیتے ہیں‘ ان کے ساتھ کرسمس مناتے ہیں ‘ اپنی حلال کی کمائی سے کرسمس کیک بھی لے کر جاتے ہیں اور کیک کاتٹے بھی ہیں۔

مسلمانوں کا تو یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالٰی کے بندے اور پیغمبر ہیں۔جس طرح اللہ تعالٰی نے حضرت آدم علیہ السلام کو بغیر ماں باپ کے پیدا کیا اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بغیر باپ کے پیدا کیا ۔

اب ذرا عیسائیوں کا عقیدہ بھی ملاحظہ فرمائیے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں ، یہ کتنا بڑا بہتان ہے ۔ اُن کی خوشی میں اللہ کو محبوب رکھنے والا کوئی مسلمان کیسے شریک ہو سکتا ہے یا انہیں خوشی کی مبارکباد کیوں اور کیسے دے سکتا ہے؟

لیکن مسلمان نہ صرف مبارکباد دیتا ہے بلکہ کرسمس کیک بھی کاٹتا ہے‘ کرسمس کی محافل میں شرکت بھی کرتا ہے‘ نیو ایر بھی مناتا ہے ‘ ویلنٹائین ڈے بھی مناتا ہے اور اللہ کے دشمنوں کو خوش کرتا ہے لیکن اللہ کو خوش کرنے کی نہیں سوچتا۔

ہر سال ایسے نام نہاد مسلمانوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جو کرسمس اور اس جیسی دیگر تہواروں کو مسلمانوں کیلئے جائز قرار دینےکیلئے میڈیا پر چھائے رہتے ہیں اور مسلمانوں کو گمراہی کی راہ پر لگا کر اپنے آقاؤں کو خوش کرتے ہیں۔ پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کے ہر بڑے شہر میں کرسمس ‘ نیو ایر‘ ویلنٹائن ڈے وغیرہ بڑی دھوم دھام سےمنائی جاتی ہے اور مسلمان خاص کر نوجوان لڑکے لڑکیاں خوب رنگ ریلیاں منا کر اپنے رب کو ناراض کرتے ہیں۔

ایسے نوجوانوں سے کیا کوئی خیر کی توقع کی جا سکتی ہے؟
کیا ان میں کوئی صلاح الدین ایوبی کا کردار ادا کر سکتا ہے ؟

اس امت کی اگر یہی روش رہی تو اب جب دشمن یلغار کرے گا تو انہیں آنسو بہانے کا موقع بھی نہیں دے گا ۔

کاش ! امت کے یہ نوجوان لہو و لعب سے نکل کر اللہ کو راضی کرنے کیلئے آج تھوڑی آنسو بہاتے‘ امت کی حالت پر کڑھتے‘ سسکتے اور امت کو اس کا کھویا ہو مقام دلانے کی کوشش کرتے تو ان کا دنیا اور آخرت دونوں سدھر جاتا لیکن انہیں تو کرسمس‘ نیو ایر ‘ ویلنٹائن ڈے وغیرہ منانے سے ہی فرصت نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں