کیا ہمارا نقطہء نظر ٹھیک ہے یا پھر نہیں؟کیا ہم باتوں اور واقعات کو تفصیل سے مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں یا نہیں؟کیا ہم مکمل بات جانے بغیر ہی فیصلہ سنا دیتے ہیں یا نہیں؟ اکثر و بیشتر ایسا ہی ہوتا ہے کہ ہم مکمل بات جانے بغیر ہی ساری بات کا خلاصہ خود نکال لیتے ہیں۔ باتوں کو گہرائی میں دیکھے بغیرہی لعن طعن شروع کر دیتے ہیں اور بعض اوقات ہم پہلی ملاقات میں ہی اپنے ذہن میں دوسروں کا ایسا منفی خاکہ بنالیتے ہیں کہ ساری عمر اس خاکے کو بدل نہیں پاتے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم تصویر کے دونوں رخ دیکھیں اور پھر ہی کوئی فیصلہ کریں کیونکہ ضروری نہیں ہوتا کہ جو نظر آرہا ہو وہی سچ ہو۔
ملک میں حکومت کس کی ہوگی یہ ایک بہت ہی اہم فیصلہ ہے مگر یہ فیصلہ ووٹ دہندگان حقائق کے ساتھ ساتھ پسند اور نا پسند کی بنیاد پر بھی کرتے ہیں جس کی وجہ سے اصل حقائق چھپ جاتے ہیں۔ ووٹ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس پارٹی کی کارکردگی اچھی ہے اس لئے اسے زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ پسند اور نا پسند کی بنیاد پر ووٹ دینے کی ایک بڑی وجہ شخصیت پسندی ہے یا پھر کسی امیدوار میں ایک اچھائی یا ایک برائی دیکھ کرووٹ دینے کا فیصلہ کر لیا جاتا ہے۔ظاہر ہے یہ اہم فیصلہ کارکردگی اور حقائق کی بنیاد پر بھی کیا جاتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں۔سابق وزیراعظم پاکستان نواز شریف کی حکومت میں میٹرو بس منصوبہ شروع ہوا اور لاہور کو بہتر بنانے میں ان کا اہم کردار ہے لیکن باقی شہروں میں اتنا ترقیاتی کام نہیں کیاگیا جتناکام کرنے کی ضرورت تھی۔ بھٹو ابھی بھی زندہ ہے اورسابق صدرپاکستان آصف علی زرداری کی حکومت میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا گیا لیکن سندھ کے برے حالات کسی سے بھی ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ موجودہ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ۲۹۹۱ء کا ورلڈ کپ جتوایا تھا اور کینسر کے مرض میں مبتلا افراد کے لئے ہسپتال بھی بنایا ہے لیکن اس حکومت نے مہنگائی کر کے غریب آدمی کی کمر توڑ دی ہے۔یہ کہہ کرمہنگائی کی گئی کہ ہمیں ملک ہی خزانے سے خالی ملا ہے اور ہم آئی ایم ایف سے قر ضہ نہیں لیں گے۔ یا پھر ووٹ اس بنیاد پر دیا جاتا ہے کہ ہمارے بزرگ اور والدین فلاں پارٹی کے وفادار ہیں اور ہم بھی ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ووٹ اسی پارٹی کو دیں گے۔چاہے پسندیدہ پارٹی کام کرے یا نہ کرے ”ووٹ“ اور ”ووٹر“ ان کا ہی رہے گا۔ عوام اپنے اپنے پسندیدہ سیاستدانوں کے ہرہر لفظ کو سچ سمجھ کر مخالفین سے الجھتے رہتے ہیں جبکہ سیاست دان انھیں بے وقوف بنا رہے ہوتے ہیں اور اپنے مفاد کے لئے انھیں استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔ عوام کو اب اس بات کو سمجھ جانا چاہیے کہ سیاست میں کوئی بھی لفظ حرفِ آخر نہیں ہوتا۔تصویر کا ایک رخ یہ ہے کہ عوام کہتی ہے کہ”فلاں پارٹی نے الیکشن کے دنوں میں ہمارا یہ مسئلہ حل کرنے کے لئے اقدامات شروع کئے ہیں اب ہم انہی کو ووٹ دیں گے“ اور تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ عوام یہ نہیں سوچتی سمجھتی کہ فلاں پارٹی حکومت میں آنے یانہ آنے کی صورت میں کام ادھورا بھی چھوڑ سکتی ہے۔
کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ میں نے شوشل میڈیا پر ایک بہت عمدہ بات پڑھی۔ ”اگر کوئی خاتون ٹیکسی میں آگے والی سیٹ پر بیٹھی ہے تو کچھ غلط نہ سمجھیں وہ اس کا شوہر بھی ہو سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص نماز نہیں پڑھ رہا تو ہو سکتا ہے کہ وہ کسی دوسرے مسلک سے تعلق رکھتا ہو اور اس نے اپنے وقت کے مطابق نماز پڑھ لی ہو۔ اگر کوئی آپ کے سلام کا جواب نہیں دے رہا تو ہوسکتا ہے کہ اس نے سنا ہی نہ ہو یا پھر وہ سن ہی نہ سکتا ہو۔“ لیکن اگر ہم ان واقعات کو دیکھ کر انسانوں کے اعمال اور کردار کا فیصلہ کرنا شروع کر دیں تو ہم غلطی پر ہیں۔ ہم کسی بے گناہ کے کردار پر الزام لگا دیں گے، کسی کو بے نمازی سمجھ کر اپنے دل میں اس کے لئے نفرت پیدا کرلیں گے،یا سلام کا جواب نہ دینے والے آدمی کو مغرور، متکبر یا پھر بدتمیز سمجھ کر برا سمجھیں گے۔
میں اپنی زندگی کی ایک مثال دینا چاہوں گا۔ میں اپنے والد کے ساتھ گاڑی میں گھر جا رہا تھا کہ راستے میں میں نے دیکھا کہ دو خواتین بہت ہی تیزی سے چل رہی ہیں اور ان کے وسط میں ایک آدمی بھی ہے جس کے پاؤں کانپ رہے ہیں۔ وہ بھاری قدموں سے چل رہا ہے۔ آگے والی خاتون کا بازو پیچھے کی طرف تھا اور پیچھے والی خاتون نے کندھے پر ہینڈ بیگ لٹکایا ہوا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ آدمی ان خواتین سے ان کا ہینڈ بیگ چھین کر بھاگنے کی کوشش کر رہا ہوگا جس کے نتیجے میں ان دونوں خواتین نے اس کو گریبان سے پکڑ لیا ہے اور اب اسے زبردستی تھانے لے کر جا رہی ہیں۔
جب ہماری گاڑی ان کے پاس سے گزری تو معاملہ بلکل ہی مختلف تھا۔ آدمی کے ہاتھ میں ایک بیہوش کمسن بچہ تھا جس کے سر سے خون بہہ رہا تھا اور آگے والی خاتون نے اپنا ہاتھ پیچھے کر کے ایک بڑی سفید چادرسے بچے کا سر دبا رکھا تھا تاکہ خون جم جائے۔ آدمی سے گھبراہٹ اور تکلیف کے باعث چلا نہیں جا رہا تھا اور پیچھے والی خاتون بھی تیز گام تھی۔ سڑک کی دوسری جانب کھڑا ایک آدمی ٹیکسی رکوا کر انھیں ہاتھ کے اشارے سے اپنی طرف بلا رہا تھا۔ تصویر کے ایک رخ نے ایک بے قصور آدمی کو میری نظر میں مجرم بنا دیا تھا پھر میرے دل سے اس مسیحا کے لئے دعائیں نکلیں۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہمیشہ مکمل بات پر ہی یقین کریں۔آدھا سچ جھوٹ بھی ہو سکتا ہے اس لئے مکمل سچ جاننے کی کوشش کرنی چاہیے۔
جب بھی کوئی واردات ہوتی ہے تو واقعے کی مکمل جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ اس میں ثبوت، شواہد، سی سی ٹی وی فوٹیج اور عینی شاہدین کے بیان مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ جس سے حقیقت اور سچ معلوم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ہمیں بھی بلکل اسی طرح ذمہ داری سے جانچ پڑتال کر کے ہی کسی نتیجے پر پہنچنا چاہئے۔
آدھی ادھوری باتیں جان کر کوئی اصلاح کا کام نہیں کیا جاسکتا البتہ کسی کو بدنام اور کسی کو بدگمان ضرور کیا جا سکتا ہے۔ اس سے غلط فہمی جنم لیتی ہے جس سے ڈھیڑوں مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ بات، واقعہ، اور انسان کو مکمل جان کر ہی کوئی سوچ بنائیں اور کسی نتیجے پر پہنچیں۔ اس سے آپ اور میں کل کو شرمندہ ہونے سے بچ جائیں گے۔ آخر میں منیر نیازی صاحب کا ایک شعر۔
؎ کسی کو موت سے پہلے، کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے یہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں
254