کیا مسلہء کشمیر حل کئے بغیر بھارت سے تجارت کی جا سکتی ہے 50

کیا مسلہء کشمیر حل کئے بغیر بھارت سے تجارت کی جا سکتی ہے

کالم نگار سینئر صحافی/ اعجاز احمد طاہر اعوان،پی این پی نیوز ایچ ڈی

اقوام متحدہ کی قراردادیں ہی بھارت پاکستان کو قانونی اور آئینی بنیاد فراہم کر سکتی ہے۔ اس سنگین مسلہء میں تاخیر سے کشمیری عوام کا حق خودارادیت شرانگیزی کا شکار بن کر رہ گیا ہے۔ 5 جنوری 1949 قرار دادوں میں اقوام متحدہ کے عالمی ادارے نے واضع الفاظ میں کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت کی تھی۔ پاکستان تجارت کے حوالے سے دنیا کے ی ئے “”ایک گیٹ وے”” کی حثیت رکھتا ہے۔ بھارت کی لیڈر شپ نے تقسیم ہند کو کبھی آج تک دل سے تسلیم ہی نہیں کیا۔
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے تو کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا اور اسے قوت بازو سے آزاد کرانے کی کوشش بھی کی۔ اور اس وقت سات لاکھ دے زائد افواج نہتے اور بے گناہ کشمیریوں پر اپنے مظالم کے پہاڑ گرا رہی ہے۔ کشمیر عوام ہر عرصہ حیات کا دائرہ بھی تنگ کر کے رکھ دیا ہے۔ اگر مسلہ۔کشمیر حل نہ ہوا تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ خدانخواستہ دونوں ممالک کے درمیان مزید جنگیں ہو سکتی ہے۔ مسلہ کشمیر کش سنجیدگی میں رہتے ہوئے حل کرائے بغیر تجارتی تعلقات کبھی بھی بحال۔نہیں ہو سکتے۔
بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کو بحال کرنے کا یہ غلط تاثر جائے گا کہ ہم کشمیر کے مسلہ کو پس پشت ڈال کر بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کو بحال کررہے ہیں یہ سرا سر کشمیریوں کے ساتھ غداری کے مترادف ہو گا۔ یہ بھی حقیقت کے قریب ہے کہ کشمیر کو حق خودارادیت دیئے بغیر ہم کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کی تحریک کو مزید سرد خانے کی نظر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مسلہ کشمیر کو یو این کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیری عوام کی امنگوں اور خواہشات کے مطابق ہی حل کیا جائے۔ اس مسئلے پر حکومت وقت کا بھی یہ ہی موقف ہے کہ مسلہ کشمیر کے حل تمھارے سے کسی بھی قسم کی تجارت کا آغاز نہ کیا جائے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت بھی ہے کہ کشمیر کا مسلہ۔حل کئے بغیر دونوں۔ممالک کے درمیان کسی صورت میں بھی تجارتی تعلقات نہیں ہونے چاہئیں “”او آئی سی OIC”” اسلامی تنظیم کے پلیٹ فارم کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے متحرک ہونے کی آج اشد ضرورت محسوس ہونے لگئی ہے۔ یہ ادارہ اب تک غیر فعال بن چکا ہے۔ اسے اب پھر سے از سرنو فعال کرنے کی ضرورت پیش آنے لگی ہے۔ عالم اسلام کو آپس میں متحد کرنے میں ہی امت اسلامیہ کے مسائل کا حل پنہاں ہے۔۔
آخر ہم کب تک مسلم دنیا کو اس طرح تنکوں کی مانند بکھرے ہوئے ہی دیکھتے رہیں گے؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں