Arrival of Mian Muhammad Nawaz Sharif in Saudi 116

پاکستان میں اتحادی سیاست کا آغاز و کردار تحریر : عبدالخالق لک

پاکستان میں اتحادی سیاست کا آغاز و کردار
تحریر : عبدالخالق لک
قائد اعظم اور خان لیاقت علی خان کے انتقال کے بعد پارلیمانی معاملات میں بیورہ کریسی اور فوج نے مداخلت کرنا شروع کر دی تھی۔ جس کے بعد پاکستان میں کوئی بھی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہ کر سکا اور سیاستدانوں کے گٹھ جوڑ اور غیر آئینی ملاپ کی ایسی ریس چل نکلی جو 75 سال گزرنے کے بعد بھی اسی شد و مد سے جاری و ساری ہے ۔ تاریخ میں جھانکیں تو پاکستان میں پہلا سیاسی اتحاد 1953میں بننے والا “دی یونائیٹڈ فرنٹ” کا ہے ۔جس میں عوامی مسلم لیگ، نظام اسلام، جنتا دل اور کرشک پراجاپارٹی شامل تھیں ۔ یہ اتحاد بھی مسلم لیگ کے خلاف بنا ،اس کی وجہ پارٹی میں اندرونی انتشار ، لیڈر شپ کا بحران، ا نتظامی نا اہلی اور غیر ذمہ دارانہ رویہ تھا جس کی وجہ سے مسلم لیگ عوامی حلقوں میں اپنی مقبولیت کھو چکی تھی اور حسین شہید سہروردی جیسے منجھے ہوے لیڈر پارٹی چھوڑ کر عوامی مسلم لیگ میں شامل ہو چکے تھے ۔ یہ اتحاد بنگال کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات سے قبل بنایا گیا تھا۔ 1953 میں مشرقی پاکستان میں ہونے والے صوبائی انتخابات میں دی یونائیٹڈ فرنٹ نے 223 نشستیں جیت کر مسلم لیگ کو بری طرح شکست سے دو چار کیا تھا، مسلم لیگ صرف 9 سیٹوں پر انتخاب جیت سکی تھی.
دوسرا سیاسی اتحاد محترمہ فاطمہ جناح کی قیادت میں 1964 کے صدارتی انتخابات کے دوران ایوب خان کے خلاف(متحدہ اپوزیشن)کے نام سے ایک اتحاد بنایا لیکن اس اتحاد کے خلاف منفی پرو پیگنڈا یہ کیا گیا کہ اسلام خواتین کو حکومت کرنے کی اجازت نہیں دیتا ،شاید اس لیے فاطمہ جناح ، اور اس کے اتحادیوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس اتحاد کے بعد 30 اپریل 1967 میں نوابزادہ نصراللہ خان کا پانچ پارٹیوں پر مبنی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے ایک سیاسی اتحاد بنا، اس اتحاد نے ایوب خان کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا ،بعد میں اس اتحاد کا نام بدل کر پاکستان ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی رکھا گیا ،یہ اتحاد اپنے مقاصد حاصل کرنے میں بہت حد تک کامیاب رہا۔ اتحادی سیاست کا سلسلہ ، گزرتے وقت کے ساتھ ملک کے سیاسی کلچر میں عام ہوتا گیا.
ملک ٹوٹنے کے بعد پہلی مرتبہ 1977 میں انتخابات منعقد ہوئے تو اس میں بھی اتحادی سیاست نمایاں رہی، پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف 9 سیاسی و مذہبی جماعتوں نے مل کر پاکستان قومی اتحاد(پاکستان نیشنل الائنس یا پی این اے)کے نام سے ایک اتحاد بنایا،پی این اے نے مذہبی کارڈ کھل کر استعمال کیا ، لیکن اس کے با وجود انتخابات میں وہ نتائج حاصل نہیں کر سکے جن کی وہ توقعات کر رہے تھے،پی این اے کو صرف 36 نشستوں پر کامیابی ملی ،انتخابات کے بعد پی این اے نے ذوالفقار علی بھٹوکی حکومت پر دھاندلی کا الزام لگا کر نتائج کو ماننے سے انکار کر دیا اور ساتھ ہی اس حکومت کے خاتمے کے لیے ملک گیر احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں نکا لنا شروع کردیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریک سول نافرمانی میں بدل گئی ، کچھ عرصہ سیاسی کشیدگی چلتی رہی لیکن پھر حکمران جماعت اور پی این اے کے درمیان مذاکرات ہوئے، حکومت اور پی این اے کئی باتوں پر متفق ہو چکے تھے کہ ضیاء الحق نے بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا، اس طرح یہ اتحاد بھی اپنے انجام کو پہنچا اور بھٹو پھانسی جا لگے.
اس کے بعد ایک بار پھر سے جمہوریت کی بحالی کے لیے6 فروری 1981میں ایم آر ڈی تحریک کی بنیاد رکھی گئی ،جس کی قیادت نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے کی،ایم آر ڈی کی تحریک میں10 سے زیادہ سیاسی جماعتیں شامل تھیں،اس تحریک میں متعدد سیاسی
رہنماؤں نے جیل کی ہوا بھی کھائی اور سیاسی کارکنوں کو اس تحریک کے دوران خوب کوڑے کھانے پڑے تھے ،یہ تحریک شروع میں پنجاب اور سندھ میں خاصی مقبول رہی ۔ اس کے بعد اسلامی جمہوری اتحاد کی بنیاد پی پی پی کے مخالف سیاسی رہنماؤں نے رکھی جسکی قیادت سندھ سے تعلق رکھنے والے سیاسی لیڈر غلام مصطفیٰ جتوئی نے کی ، یہ اتحاد بھی پی این اے کی طرح 9 سیاسی و مذہبی پارٹیوں پر مشتمل تھا ، یہ اتحاد 1988 کے الیکشن سے پہلے وجود میں آیا، اِس اتحاد کو غیر جمہوری اور پی پی پی مخالف قوتوں کی بھرپور حمایت حاصل تھی.
اسلامی جمہوری اتحاد کو اس الیکشن میں قومی سطح پر کامیابی نہ مل سکی تاہم یہ اتحاد صوبہ پنجاب میں کامیاب ہو کر حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگیا۔ دوسری جانب قومی اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی 94 نشستوں پر انتخاب جیت کر مرکز ی حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔ اِس انتخابی معرکے کے بعد وطنِ عزیز میں قبل از وقت انتخابات1990 میں ہوئے۔ جس میں دو بڑے اتحاد بنے جن میں پیپلز ڈیموکریٹک الائنس اور اسلامی جمہوری اتحاد جو کہ پہلے سے بنا ہوا تھا۔اسلامی جمہوری اتحاد ان انتخابات میں قومی اسمبلی کی 106 نشستوں پر الیکشن جیت کر مر کز میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ گیا،جب کہ اس کے مدِ مقابل پی ڈے اے کو صرف 45 سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔ یہاں یہ بھی یاد رکھئیے گا کہ اسی عرصے کے دوران آرٹیکل 58- 2 B کا بھی خوب استعمال ہوتا رہا اور منتخب جمہوری حکومتوں کو مدت پوری کرنے سے پہلے فارغ کرنے کا سلسلہ بھی پورے عروج پر رہا اور ساتھ ہی اتحادی سیاست کا میلہ بھی سجتا رہا.
اس کے بعد 1997 میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے نام سے ایک نیا اتحاد منظر عام پر آیا جس کی قیادت نصراللہ خان کر رہے تھے ،یہ اتحاد نواز شریف کی حکومت کے خلاف بنایا گیا تھا لیکن 12 اکتوبر 1999 میں مشرف نے ایک منتخب جمہوری حکومت کو ختم کر کے اقتدار پر قبضہ حاصل کرنے کے ساتھ ہی جی ڈی اے کا کام تمام کر دیا۔ متعدد تلخ تجرباتی کے بعد ملک کی سیاسی قیادت نے ملک میں جمہوریت کے استحکام اور آمریت کے خاتمے کے لیے مل کر جدوجہد کرنے اور باہمی اختلافات ختم کرنے کا فیصلہ کیا، ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے ایک بار پھر ملک کی 15 سے زیادہ سے زیادہ سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو گئیں اور ایک نئے سیاسی اتحاد کی بنیاد رکھی گئی، اس اتحاد کا نام “تحریک بحالی جمہوریت”یا اے آر ڈی رکھا گیا تھا.
اس اتحاد کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں ملک کی دو سب سے بڑی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن پہلی مرتبہ کسی ایک اتحاد میں شامل ہوئی تھیں، اس دوران ایک اور انتخابی میلہ 2002 کو سجا ،اس مرتبہ بھی ہمیشہ کی طرح مذہبی جماعتوں کا اتحاد بنا ،جس کا نام متحدہ مجلس عمل(ایم ایم اے) رکھا گیا اِس اتحاد میں ملک کی چھ مذہبی جماعتیں شامل تھیں جن میں جمعیت العلما ء اسلام (ف) اور جماعتِ اسلامی جیسی نامور مذ ہبی جماعتیں شامل تھیں۔ ایم ایم اے کو ان انتخابات میں صوبہ سرحد(موجودہ خیبرپختونخوا) میں صوبائی حکومت جبکہ صوبہ بلوچستان میں مسلم لیگ ق کے ساتھ مل کر صوبائی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی،ایم ایم اے ان انتخابات میں قومی اسمبلی کی 57 جنرل نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے ملک کی تیسری بڑی سیاسی قوت بن گئی،اسی الیکشن کے دوران ایک اور بھی اتحاد بنا تھاجس کا نام نیشنل الائنس تھا تاہم یہ اتحاد کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکا اور اس اتحاد کو صرف 16 نشستوں پر کامیابی مل سکی.
جس کی بدولت پیپلز پارٹی ایک بار پھر اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب رہی جبکہ 2008 کے انتخابات میں کوئی نیا اتحاد نہیں بنا البتہ متحدہ مجلس عمل جو پہلے بنا ہوا تھا وہ بھی اپنی مقبولیت بر قرار نہیں رکھ سکا۔ جبکہ انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی نے اتحادی حکومت بنائی جس میں ایم کیو ایم ، عوامی نیشنل پارٹی اور جے یو آء( ف) شامل تھیں ،یہ اتحادی حکومت اپنی غیر معیاری کارکردگی کی وجہ سے عوام میں کافی غیر مقبول رہی اس لیے اپنی حکومت بحال نہ رکھ سکی اور شکست سے دو چار ہو کر حکومت سے حزبِ اختلاف میں آ گئی ۔ اس کے بعد 2013 کے الیکشن میں بھی کوئی اتحاد نہیں بنا، البتہ کہیں کہیں مختلف جماعتوں کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوئی ،2013 کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہی ، 2013 کے انتخابات کا سب سے مثبت پہلو پاکستان تحریک انصاف کا ابھر کر سامنے آنا تھا، پاکستان تحریک انصاف پہلی مرتبہ اتنی بڑی سطح پر کامیاب ہوئی تھی ، تحریک انصاف کی سیاست کا منفی پہلو یہ ہے کہ وہ اسمبلی سے زیادہ احتجاجی سیاست کو اپنا مرکز سمجھتی ہے.
دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں اپنی کمزور حثیت کے باوجود اسٹبلشمنٹ سے گٹھ جوڑ کر کے تحریک انصاف حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی جسے جماعت اسلامی ، ایم کیو ایم کا ساتھ ملا ۔ پی ٹی آئی اپنے مخالفین کے لیے حددرجہ بے رحم ثابت ہوئی اور سیاسی اور جمہوری مکالمے کی روایت پس پشت ڈال کر دوسری سیاسی جماعتوں کے لیے جو لب و لہجہ اختیارات کیا گیا اور عالمی سطح پر عمران خان کے منفی کردار نے پاکستان کے لیے بے پناہ مشکلات پیدا کر دیں۔ 2018 کے انتخابات کے نتیجے میں تحریک انصاف کی حکومت اور عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو دوبارہ ایک ساتھ متحد ہونے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
اسی ضرورت کے تحت 20 ستمبر 2020 میں پی ڈی ایم کا سیاسی اتحاد وجود میں آیا جس میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور جمعیت علما اسلام (ف) سمیت حزب مخالف کی دس جماعتیں شامل ہیں۔معلوم نہیں یہ محض حسن اتفاق ہے کہ حسن اہتمام کہ موجودہ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے ہی 53 برس قبل اس وقت کی حزب اختلاف کی جماعتوں کا اتحاد قائم ہوا تھا۔ عمران خان کو آئینی طریقے سے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے الگ کیا گیا ۔ جسے اس نے رد کر کے ملک میں انتشاری سیاست کو جنم دیا جس کا اختتام نو مئی کے واقعات پر ہوا جس میں عمران خان کی گرفتاری اپنے لیڈر اور دیگر قائدین کے اکسانے پر پی ٹی آئی کے ورکروں نے بلوائیوں کی طرح ملک کی اہم تنصیبات پر حملے شروع کر دئیے۔ ریاست اب اپنے دفاع میں مصروف ہے.
پی ٹی آئی “چند بڑوں” کے تعاون سے ہی وجود میں آئی تھی اور ہاتھ اٹھتے ہی تتر بتر ہو گئی ۔ پی ٹی آئی سے منحرفین نے بہت پہلے پی ٹی آئی سے الگ ہو جانے والے جہانگیر ترین اور علیم خان کی قیادت میں استحکام پاکستان پارٹی کی بنیاد رکھی ہے ۔ آنے والا وقت ہی ان کی کردار اور حیثیت کا تعین کرے گا ، قبل از وقت کچھ کہنا غلط کو گا تاہم اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ
تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد پی ڈی ایم کی بننے والی اس مکس اچار حکومت کو زیادہ خطرہ مہنگائی کے سبب بڑھتے ہوئے عوامی اضطراب سے ہے۔جس جس حل بہت زیادہ ضروری ہے جبکہ آج جمہوریت کی بقا کے لیے تمام سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں کے درمیان باہمی مکالمے کی ضرورت مختلف سطحوں پر پہلے سے زیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔اللہ پاکستان اور پاکستانیوں کا حامی و ناصر ہو آمین ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں