رپورٹ (تازہ اخبار ،پی این پی نیوز ایچ ڈی)
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے رہنما شہباز گل کی ضمانت بعداز گرفتاری منظور کرلی۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ یہ بینچ بغاوت کو نہیں مانتا، اس کے علاوہ دلائل دیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمعرات 15 ستمبر کو پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کے خلاف دائر بغاوت اور ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے کے مقدمے کی سماعت ہوئی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہر من اللہ نے شہباز گل کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔ سماعت کے آغاز میں پی ٹی آئی رہنما کے وکیل نے موقف اپنایا کہ شہباز گل کے خلاف مقدمہ بدنیتی پر مبنی اور قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے، شہباز گل کے خلاف مقدمہ سیاسی ہے۔
چیف جسٹس نے شہباز گل کے وکیل کو سیاسی بات کرنے سے روکتے ہوئے کہا کہ آپ قانونی نکات پر دلائل دیں.
وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ شہباز گل تحریک انصاف حکومت میں معاون خصوصی تھے، شہباز گل کو حکومت ختم ہونے کے بعد عمران خان کا چیف آف اسٹاف بنا دیا گیا، شہباز گل حکومت پر بہت تنقید کرتے ہیں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ قانونی نکات پر دلائل دیں.
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا یہ ساری باتیں شہباز گِل نے کہی تھیں ؟ کیا ان تمام باتوں کا کوئی جواز پیش کیا جا سکتا ہے ؟ کیا سیاسی جماعت کے ایک ترجمان کے ان الفاظ کا کوئی جواز پیش کیا جا سکتا ہے ؟ کیا سیاسی جماعتوں کو آرمڈ فورسز کو سیاست میں دھکیلنا چاہیے ؟ یہ صرف تقریر نہیں ہے۔
وکیل نے موقف اپنایا کہ شہباز گل کی گفتگو کا کچھ حصہ نکال کر سیاق و سباق سے الگ کر دیا گیا، شہباز گل نے کہیں بھی فوج کی تضحیک کرنے کی کوشش نہیں کی، شہباز گل کی ساری گفتگو اسٹریٹیجک میڈیا سیل سے متعلق تھی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی جماعتوں نے نفرت کو کس حد تک بڑھا دیا، اس تقریر کو دیکھ لیں، یہ گفتگو بتاتی ہے کہ نفرت کو کس حد تک بڑھا دیا گیا ہے.
وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ آرمڈ فورسز کی طرف سے مقدمہ درج کرانے کا اختیار کسی اور کے پاس نہیں، شہباز گل پر مقدمہ میں بغاوت کی دفعات بھی شامل کر دی گئیں، ٹرائل کورٹ نے تو پراسیکیوشن کا کیس ہی ختم کر دیا، شہباز گِل کے ریمانڈ کو بہت متنازع بنایا گیا، بغاوت کی دفعات نے اس مقدمہ کو بھی متنازع بنا دیا، ٹرائل کورٹ نے کہا کہ 13 میں سے 12 دفعات شہباز گل پر نہیں لگتیں، چلیں ایک نمبر تو دیا نا،عدالت نے اسپیشل پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ کیا کسی آرمڈ فورسز کے بندے سے شہباز گل نے رابطہ کیا؟،تفتیش میں بتائیں یہ بات سامنے آئی یا نہیں آئی؟ جس پر اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ تفتیش میں شہباز گل کا کسی فوجی سے رابطہ سامنے نہیں آیا، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر ایسا ہے تو پھر تو یہ مزید انکوائری کا کیس ہے نا۔ امکان نہیں ہے کہ شہباز گل اپنی بات کو پھر سے دہرائیں گے، شہباز گل کی جانب سے شواہد ٹمپر کرنے کا بھی امکان نہیں۔
جواباً پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ ہمیں وقت دیں 30 دن میں ٹرائل مکمل کرلیں گے۔ اس موقع پر عدالت نے پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کی ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں 5 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دے دیا.