تحریر:مہر عبدالخالق لک،پی این پی نیوز ایچ ڈی
اس ضمن میں چند اہم باتیں ہیں جن پر اگر پوری دیانت داری سے کام کیا جائے تو ملک میں ویزہ ایجنٹی، اس سے وابستہ لوٹ مار اور ہر طرح کے فراڈ اور دھوکہ دہی پر قابو پایا جا سکتا ہے-
دیکھیں، یہ ایک عام فہم بات ہے کہ ہنر مند لوگ ہر ملک کی ضرورت ہیں- اپنا ہنر اچھے سے اچھے داموں بیچنا ہنرمند کا حق ہے- بدقسمتی سے یہ لوگ فراڈیوں کے ہاتھ چڑھ کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں- کیا اس کےلیے حکومت کو ایک منظم ادارہ بنانے کی ضرورت نہیں؟
اس حوالے سے Man Power Supply طرز کا ایک آئیڈیا ہے جو آپ دوستوں اور اجنٹ حضرات کیلئے نیا ہو لیکن لوکل لیبر سپلائ اس فارمولہ پر چل رھی ہے
آپ کی دلچسپی اور معلومات کےلیے لکھ رہا ہوں-
جیسےاج سے بیس سال عمرہ وحج کمپنی نہ تھیں
اب بندہ اللہ کے گھر سےغائب ہونے کا سوچتا ہے۔ ایجنٹ حضرات حاجی کے گھر پہلے پہنچ جاتے ہیں
دراصل ویزا ایجنٹس کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ مرغی کے انڈے کھانے کی بجائے پوری مرغی ایک ہی بار میں ہڑپ کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں- ان کا کام ویزہ بیچ کر اور فیس لے کر معاملے سے باہر نکلنا ہوتا ہے-
اس کی بجائے اگر یہ کام براہ راست حکومت سنبھال لے اور یہ کام اس سے وابستہ ریاستی منسٹری کے دائرہِ کار میں شامل کر دیا جائے تو ویزہ بیچنے والوں کا مکروہ دھندہ بند ہو سکتا ہے-
ملک میں ہنر مند افراد تیار کرنے والے ادارے موجود ہیں جن میں ٹیوٹا سب سے بڑا نام ہے ۔ یہاں سے ہنر مند افراد تیار کیے جائیں اور پھر بیرون ملک کی ضروریات کے مطابق حکومتی سطح پر ہی وہ افراد ملک سے باہر جائیں ۔
حکومت اگر چاہے تو نجی اداروں کے ساتھ بطور سیل ڈیپارٹمنٹ پارٹنر شپ بھی کر سکتی ہے اور باہر جانے کے خواہش مند افراد سے ایک ہی بار پیسے لوٹنے اور بٹورنے کی بجائے ان سے ماہانہ یا فی گھنٹہ کمیشن بھی طے کیا جا سکتا ہے-
ابتدائی معاہدہ دو سال کا ہونا چاہیے۔لیکن سسٹم ایسا منظم ہو کہ بیرون ملک جانے والے کو وہاں جاب نہ تلاش کرنی پڑے بلکہ سیل ڈیپارٹمنٹ کے پاس اس کی اسکلز نالج ہوں اور وہ اندرون اور بیرون ملک ان کی صلاحیتوں کے مطابق انہیں جاب تلاش کر کے دیں ۔ کمیشن دس سے پندرہ فیصد طے کر لیا جائے ۔
تاہم اگر کوئی شخص طے شدہ معیار اور معاہدے کی دیگر شرائط پر مثلآ اسکلز کا معیار ، کردار، نفسیات اور دیگر شرائط پوری نہ ہو تو اسے بیرونِ ملک نہ بھیجا جائے کیونکہ وہاں جا کر وہ ملک و قوم کی بدنامی کو چھوڑیے اپنے لیےہی مصیبت کا باعث بنتا ہے ۔
بیرون ملک جانے والے افراد کےلیے سرکاری انسٹیٹیوٹ سے سرٹیفیکیٹ لینا اور عالمی معیار کے مطابق ان کی نفسیاتی اور جسمانی پرکھ لازمی ہونی چاہیے ۔ اسی طرح نجی سیکٹر کے ایجنٹوں کے لیے بھی معیارات طے کیے جائیں اور جو ان پر پورا نہ اترے ان کو ناصرف جرمانہ کیا جائے بلکہ ان کا لائسنس بھی منسوخ کیے جائیں ۔
یہ اقدام یقیناً اس شعبے میں انقلاب لا سکتا ہے- جب ہر سیلز شعبہ کمیشن پہ کام کر سکتا ہے تو افرادی قوّت میں یہ نظام کیوں کارفرما نہیں ہو سکتا؟ یہ کوئی اتنا بڑا کام نہیں ہے بس پہلے سے جاری شدہ سرگرمیوں کو ریگولیٹ کرنا ضروری ہے-
صاف صاف بات ہے کہ جب تک بندہ بیرون ملک کام کرتا رہے گا، ایجنسی اور ایجنٹ کو کمیشن ملتا رہے گا جب آپ کا بندہ وہاں پر نہیں ہو گا کمیشن نہیں ملے گا ۔ اس طرح سیل مین بہترین قسم کے ہنر مند افراد تیار کروائے گا اور ایجنٹی کے نام پر ہونے والی منفی سرگرمیاں ختم ہو جائیں گی اور ماؤں کے لال ڈنکی لگا کر پاکستان سے باہر نہیں جائیں گے بلکہ سیکھ کر سمجھ کر اور سرکاری سرپرستی میں باہر جائیں گے ۔