پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار وضاحت طلب ہے. سپریم کورٹ 167

پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار وضاحت طلب ہے. سپریم کورٹ

سٹاف رپورٹ (تازہ اخبار ،پی این پی نیوز ایچ ڈی)

سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبر پختونخوا انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت شروع ہوگئی۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 9 رکنی لارجر بنچ ازخود نوٹس کیس کی سماعت کررہا ہے ۔
لارجر بنچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔
سپریم کورٹ نے از خود نوٹس میں تین سوالات اٹھائے ہیں، پہلا سوال اسمبلی تحلیل ہونے پر الیکشن کی تاریخ دینا کس کی ذمہ داری ہے؟ دوسرا سوال انتخابات کی تاریخ دینے کا آئینی اختیار کب اور کیسے استعمال کرنا ہے؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ عام انتخابات کے حوالے سے وفاق اور صوبوں کی ذمہ داری کیا ہے؟۔
عدالت نے ازخود نوٹس سی سی پی او غلام ڈوگر ٹرانسفرکیس میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہرنقوی کے نوٹ پرلیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ میں سماعت کے آغاز پر عدالت نے کہا کہ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار وضاحت طلب ہے، پنجاب اور کے پی اسمبلیاں 14 اور17 جنوری کو تحلیل ہوئیں، آرٹیکل 224/2 کے تحت انتخابات اسمبلی کی تحلیل سے 90 دنوں میں ہونے ہوتے ہیں، آرٹیکل 224 ایک ٹائم فریم دیتا ہے۔
عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گی، چاہتے ہیں انتخابات آئین کے مطابق ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے 3 معاملات کو سننا ہے، صدر پاکستان نے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا، آرٹیکل 224 کہتا ہے 90 دنوں میں انتخابات ہوں گے، سیکشن 57 کے تحت صدر نے انتخابات کا اعلان کیا ہے، دیکھنا ہے صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد تاریخ دینا کس کا اختیار ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ انتحابات کا مسئلہ وضاحت طلب ہے، ہم ارادہ رکھتے ہیں کہ آپ سب کو سنیں گے لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے سماعت طویل نہیں کریں گے، تیاری کریں کیس کی سماعت سوموار سے ہوگی۔
دورانِ سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میرے ازخود نوٹس سے متعلق کچھ تحفظات ہیں، ہمارے سامنے دو اسمبلیوں کے سپیکر کی درخواستیں ہیں، یہ ازخود نوٹس جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی کے نوٹ پر لیا گیا، اس کیس میں چیف الیکشن کمشنر کو بھی بلایا گیا جو کہ فریق نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ سوال دونوں اسمبلیوں کے سپیکرز نے اپنی درخواستوں میں شامل کیے ہیں لیکن سپریم کورٹ نے صرف آئینی نکتہ دیکھنا ہے اور اس پر عملدرآمد کرانا ہے، ہم صرف آئین کی تشریح اور آئین کی عملداری کے لیے بیٹھے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ ‏ہم آج نوٹس جاری کریں گے، ‏ہم اس معاملے کو طوالت نہیں دینا چاہتے اور نہ کوئی ابہام چھوڑنا چاہتے ہیں، ‏ہم 2 بجے بیٹھے ہیں اور یہ ہمارے لیے غیرمعمولی ہے۔
سماعت میں اٹارنی جنرل نے وقت دینے کے لیے استدعا کی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کل ہم صرف چند ضروری باتوں تک محدود رہیں گے، کیس کی تفصیلی سماعت اگلے ہفتے کریں گے۔
اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا بھی ازخود نوٹس لیا جائے۔
دورانِ سماعت جسٹس جماعت مندوخیل نے کہا کہ اس ازخود نوٹس کیس پر اپنی آبزرویشن دینا چاہتا ہوں، یہ ازخود نوٹس کیس نہیں بنتا۔
اس دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ‏آرٹیکل 224 کہتا ہے 90 روز میں انتخابات ہوں گے اور ‏وقت جلدی سے گزر رہا ہے، ہائیکورٹ میں معاملہ زیر التوا تھا مگر کوئی فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں