خواہشات کے تعاقب میں 152

بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ

تحریر : دست علی مہمند

جب تک کوئی ملک اپنا خارجہ پالیسی باقی دنیا کے ساتھ اپنے نظریہ، ثقافت ، اقدار، تاریخ قومی مفادات اور جغرافیہ کو مدنظر رکھ کر مرتب نہیں کرپاتی تو باقی دنیا سے برابری کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ ایک محکوم ملک کی صورت میں اسے اپنا سیاسی ، اقتصادی اور دفاعی معاملات طے کرنے پڑتے ہیں ۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہوا دنیا سیاسی اور معاشی لحاظ سے تین بڑے گروپس نیٹو ، وارسا اور غیر جانبدار تحریک میں منقسم ہوگئی۔
امریکہ کی قیادت میں 1949ء میں شمالی امریکا میں نیٹو کے نام سے ایک فوجی معاہدہ ہوا۔ جس کے 18 ممالک ممبر بنے۔ اب تو اس کی ممبر ممالک کی تعداد تقریبآ 29 تک پہنچ چکی ہے نیٹو کا مقصد سیاسی اور معاشی طور پر سوویت یونین کا راستہ روکنا تھا۔
نیٹو کے مقابلہ میں1955ء مین پولینڈ کے شہر وارسا کے مقام پر سویت یونین کے قیادت میں مشرقی یورپ کے 12 کمیونسٹ ممالک کا فوجی اتحاد وارسا فیکٹ کے نام سے قائم ہوا ۔ لیکن سوویت یونین کی سرحد جنگ میں شکست کے ساتھ ہی 1991ء میں یہ تنظیم ختم ہوگئی اور اس کے زیادہ تر ممبر ممالک نیٹو میں شامل ہوگئے۔
تیسرا گروپ غیر جانبدار تحریک کی شکل میں قائم ہوا۔ جس کے اکثر ممالک سرد جنگ کے دوران غیر جانبدار رہے۔
بھارت نے غیر جانبدار تحریک میں شامل ہوکر ایک فعال کردار ادا کیا اور روس و امریکہ سے بیک وقت اچھے تعلقات قائم رکھے۔ جب کہ پاکستان کی نیٹو کی طرف جھکاؤ سے اس کا پوزیشن متنازعہ ہوگیا۔
پاکستان کا نیٹو کی طرف جھکاؤ کی اصل وجہ پاکستانی سوِل ملٹری اسٹیبلشمنٹ تھی۔ پاکستان کے قیام کے بعد پاکستان کی سوِل ملٹری اسٹبلشمنٹ کا جھکاؤ سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کی طرف رہا۔ وہ انگریز دور کےبرٹش انڈیا خارجہ پالیسی کا تسلسل جاری رکھنا چاہتے تھے پاکستان کے سوِل ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں زیادہ تر انگریز کے وفادار لوگوں کی اولاد شامل تھی جن کو ان کے خدمات کے صلے میں برٹش گورنمنٹ کی جانب سے مختلف مراعات دی گئی تھیں پاکستان کے سوِل ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو کمیونزم کے مقابلے میں سرمایہ دارانہ نظام میں اپنا مستقبل روشن دکھائی دے رہا تھا۔ اس لیے انہوں نے کمیونسٹ بلاک میں جانے کی بجائے کیپٹلیسٹ بلاک کا انتخاب کیا ۔
امریکہ نے 1950ء میں جب بھارت کے وزیر اعظم نہرو کو امریکہ کا دورہ کرنے کی دعوت دی تو پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے اس کی ردعمل میں روس کے دورے کا پروگرام بنایا ۔ جسے روس کے سربراہ حکومت جوزف اسٹالن نے فوراً قبول کیا لیکن پاکستان کی سوِل ملٹری اسٹبلشمنٹ نے یہ دورہ ناکام بنا دیا اور اسی سال لیاقت علی خان کو امریکہ کے دورے پر مجبور کیا۔ جس سے پاکستان کے سویت یونین کے ساتھ تعلقات خراب ہوگئے ۔
سوویت یونین کو مزید نکلیل ڈالنےکے لیے امریکہ کے صدر ہیری ٹرومن سینٹو اور سیٹو جیسے معاہدوں کے نام پر مزید ممالک کو اپنے گروپ میں شامل کرنے میں کامیاب ہوگیا ۔ بدقسمتی سے پاکستان بھی سینٹو اور سیٹوں کا رکن بنا ۔ پاکستان کے علاوہ ایران عراق اور ترکی بھی سینٹو اور سیٹو میں شامل ہوگئے۔ اور انہی معاہدوں کے رو سے امریکہ کو پاکستان میں پشاور سمیت کئی اہم مقامات پر فوجی اڈے مل گئے جہاں سے سویت یونین کے حساس مقامات کی جاسوسی کی جاتی تھی۔ 1960ء میں امریکہ کا ایک جاسوس طیارہ پشاور کے ہوائی اڈے سے اڑ کر روسی سرزمین پر جاسوسی کرتے ہوئے مار گرایا گیا۔ جس کی وجہ سے پاکستان اور سوویت یونین کے تعلقات مزید خراب ہو گئے۔ روس نے حساب برابر کرنے کی غرض سے 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں میں بھارت کی مکمل فوجی مدد کی۔ جبکہ سیٹو اور سینٹو کے رکن ہونے کے باوجود بھی امریکہ نے پاکستان کی کوئی خاطرخواہ امداد نہیں کی بلکہ اُلٹا 1965ء کی جنگ میں پاکستان کا بھارت کے خلاف امریکی اسلحہ استعمال کرنے پر امریکہ نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا۔
پیپلزپارٹی کی دور حکومت میں ذوالفقار علی بھٹو نے سوویت یونین سے تعلقات بہتر کرنے کی سنجیدہ کوششیں کی جس کے کچھ اچھے نتائج برآمد ہوئے۔سوویت یونین نے کراچی میں اسٹیل ملز لگانے سمیت کئی اہم شعبوں میں سرمایہ کاری کی خواہش ظاہر کی۔
پاکستان نے سیٹو اور سینٹو سے علیحدگی اختیار کی جس کی وجہ سے پاکستان کی روس، چائنا ، مصر اور سعودی عرب سے تعلقات بہتر ہوئے لیکن جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں افغان جنگ میں ایک دفعہ پھر پاکستان بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ کے مصداق شامل ہوگیا جس کی وجہ سے پاکستان اور سوویت یونین کے تعلقات ایک دفعہ پھرخراب ہو گئے۔ جس کی ردعمل میں پاکستان میں بالعموم اور خیبر پختونخوا میں بالخصوص دھماکوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا جس کی وجہ سے عوام کا کافی جانی و مالی نقصان ہوا ۔

دوسری طرف افغانستان کے متعلق سویت یونین کے غیر دانشمندانہ پالیسی نے انہیں ایک بڑے سانحہ سے دوچار کر دیا ۔جس کی وجہ سے سوویت یونین ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا اور امریکہ اور روس کے درمیان شروع ہونے یہ سرد جنگ 1991ء میں سوویت یونین کی شکست کی شکست پر تمام ہوا۔ اس کے ساتھ ہی وارسا فیکٹ کا شیرازہ بھی بکھرنے لگا اور وارسا فیکٹ کے زیادہ تر رکن ممالک نیٹو کے کیمپ میں چلے گئے۔ سویت یونین معاشی طور پر اتنا کمزور ہوا کہ ملک چلانے کے لئے انہیں اپنے ابدوز اور جنکی سازوسامان تک فروخت کرنا پڑا۔
1999ء میں نواز شریف کے دور حکومت میں سویت یونین سے ایک دفعہ پھر تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی گئی۔
مگر اسی سال جنرل مشرف نے نواز شریف کی حکومت کو چلتا کردیا۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے واقع کے بعد امریکہ اپنے اتحادیوں سمیت افغانستان پر حملہ اور ہوا جس میں پاکستان نے فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کیا جس سے ایک دفعہ پھر پاکستان میدان جنگ بن گیا جس کا خمیازہ پاکستان کے بے قصور اور غریب عوام اج تک کہیں پر ٹیررزم ،کہیں پر فوجی اپریشن ،کہیں پر ٹارگٹ کلنگ ،کہیں پر بھتہ خوری اور کہی پر کچے کی ڈاکو کی شکل میں بھگت رہا ہے۔

چند سال پہلے عمران خان کا روس کا دو روزہ دورہ بہت اہمیت کا حامل تھا۔ اس دورے کا ایک ممکنہ فائدہ یہ بھی ہوتا کہ اگر پاکستان، روس ، ایران، افغانستان، اور ترکی یورپی یونین کی طرز پر اپنا کرنسی متعارف کرانے اور باہمی تجارتی رشتے مضبوط کرنے کے لیے ماحول ساز گار بنادیتے تو پاکستان ایک طرف چائنا، ایران، ترکی اور روس کے مصنوعات جو کہ مغربی ممالک کے مصنوعات کے مقابلے میں انتہائی سُستے ہیں سے مستفید ہوتا تو دوسری طرف وسطی ایشیائی ممالک کے قدرتی وسائل تک رسائی ممکن ہو جاتی۔ پاکستان کے برامدات میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا کیونکہ مفربی دنیا کے منڈیوں میں پاکستانی مصنوعات کا کوئی معقول ڈیماںڈ نہیں۔ اگر یہ ممالک مشترکہ کرنسی متعارف کرنے میں کامیاب ہوجاتے تو امریکی ڈالر کی قیمت میں کافی حدتک کمی واقع ہو جاتی جس کی وجہ سے پاکستان پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا قرضہ نصب ہوکر رہ جاتا لیکن بدقسمتی سے حسب روایت پاکستان کی سوِل ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قیادت ایک پیج پر نہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف یہ دورہ ناکام ہوا بلکہ ملک الٹا سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوا۔
اس دورے کی ناکامی کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں ، ججوں اور سول ملٹری اسٹبلشمنٹ کے لیے امریکہ اور یورپی ممالک کے مقابلے میں روس ، چین اور ایران میں کوئی ایسی محفوظ پناہ گاہیں نظر نہیں آتی جہاں پر اس کے چوری اور کرپشن کے ذریعے کمایا ہوا پیسہ محفوظ رہ سکیں۔
روس کے موجودہ صدر اور سابقہ کے جی بی کے سربراہ ولادیمیر پیوٹن نے ایک دفعہ پاکستان کے متعلق کہا تھا کہ پاکستان قبرستان کی مانند ہے
پاکستانی ایلیٹ کلاس کے لوگ اپنا بینک اکاؤنٹ سوئیزر لینڈ میں رکھتے ہیں ، علاج امریکہ اور برطانیہ میں کرواتے ہیں، شاپنگ اور سیر و سیاحت کے لیے دوبئی اور یورپ جاتے ہیں، مصنوعات چائینہ میڈ استعمال کرتےہیں، عبادت کے لئے سعودی عرب جاتے ہیں اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپنی اولاد یورپ بھیجتے ہیں لیکن جب وفات پاتے ہیں تو واپس لاکر پاکستان میں دفنا دیے جاتے ہیں۔

روس کے خلاف یوکرین ، فلسطین کے خلاف اسرائیل کی فوجی اور اقتصادی تعاون اور سعودی عرب کے ساتھ پیٹرو ڈالر معاہدہ ختم ہونے کی وجہ سے امریکی معیشت کو کافی نقصان پہنچا ہے جس کی وجہ سے صاحب اقتدار پارٹی کو اگلے الیکشن میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا سکتا ہے ۔

اس وقت ٹرمپ کی سیاسی پوزیشن کافی مقبول آور مضبوط دیکھائی دے رہا ہے اور حکومت کی ظالمانہ اور غیر دانشمندانہ پالیسیوں کے خلاف امریکی عوام میں کافی غم وغصہ پایا جاتا ہے ۔ ٹرمپ پر حملہ حکومتی پارٹی کی گھبراہٹ کا نتیجہ ہے۔ امریکہ کے کئی شہروں احتجاج بھی شروع ہو چکا ہے۔ اور ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ روس کی طرح امریکہ کا شیرازہ بھی بکھرنے کرنے والا ہے۔ اس خفت سے بچنے کے لیے امریکہ کو ایک اور جنگ کی ضرورت ہے جس کے لیے اسےایک بار پھر اپنا پُرانا دوست پاکستان یاد آ گیا ہے۔ امریکہ کے اندرونی سیاسی عدم استحکام کو دیکھتے ہوئے پاکستان کو اپنے پتے بڑے احتیاط سے پھینکنے ہوں گے امریکا کا ہمیشہ یہ طریقہ واردات رہا ہے کہ رات گئی بات گئی کے مصداق جب بھی اسے کسی اتحادی کی ضرورت پڑتی ہے تو اسے سر انکھوں پر بٹھا دیتا ہے لیکن جب اس کا مسئلہ حل ہوجاتا ہے تو اسے تنہا چھوڑ دیتا ہے۔ جس کا زندہ مثال وار اف ٹرارزم ہے۔ جس میں پاکستان کو کافی جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا بلکہ آج تک اٹھا رہا ہے اس لیے پاکستان کو امریکہ کے سابقہ قلا بازیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہوگا۔ کیونکہ یہ ملک مزید خانہ جنگی کا متحمل نہیں ہوسکتا ہمیں اپنی خارجہ پالیسی باقی دنیا کے ساتھ اپنے نظریہ، ثقافت ، اقدار، تاریخ قومی مفادات ، جغرافیہ اور برابری کی بنیاد پر مرتب کرنا چاہیئے پاکستانی عوام اپنی جان و مال کی بربادی کی قیمت پر دوسروں کے سیاسی خفت مٹانے کے لیے تیارنہیں ۔ خدا نہ کریں کہ اگر ہم نے کسی ملک یا اس ملک کے کسی سیاسی پارٹی کی سیاسی قد کاٹھ کی خاطر اپنا قومی مفادات قربان کرکے ایک دفعہ پھر ملک کو اندرونی اور بیرونی سازشوں کا مرکز بنا دیا تو نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ یہ ملک محفوظ ہوگا تو ہم محفوظ ہوں گے ہم سب نے گزشتہ دو عشروں میں عراق ، ایران ، لیبیا اور افغانستان کے سیاستدانوں ، بیوروکریٹس ،ججوں اور جرنیلوں کو ملک بدر، قتل اور بھیک مانگتے ہوئے دیکھا ہے اب ہمارے پاس ملک سنوارنے کے لیے وقت ہےاگر ہم نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو یہی حال ہمارا بھی ہوگا۔ اس لیے ملک مزید سیاسی عدم استحکام ، کرپشن اور آپریشنز کے متحمل نہیں ہوسکتا ۔ہمارا سب سے بڑا دشمن ہماری غربت اور جہالت ہے ہم سب نے ملکر اس کے خلاف ایک طویل جنگ لڑنی ہوگی اگر حکومت نے اس کے خلاف اعلان جنگ کیا تو عوام اپنے ساتھ ایک ہی پیج پر متحد و متفق پائیں گے ۔ بصورت دیگر عوام اور حکومت کے درمیان ایک ایسا شگاف پڑ جائے گا جسے بھرنے کے لیے شاید لاکھوں کروڑوں لاشیں درکار ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ اس ملک کا حامی و ناصر رہے ۔ آمین۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں