پاکستانی نوجوان بھارتی لڑکی کی محبت میں سرحد ہی پار کر گیا 302

پاکستانی نوجوان بھارتی لڑکی کی محبت میں سرحد ہی پار کر گیا

(سٹاف رپورٹ ،تازہ اخبار،پاک نیوز پوائنٹ )

یہ اکثر کہا جاتا ہے کہ محبت لوگوں کو جوڑتی ہے لیکن اگر بغیر سوچے سمجھے محبت میں کوئی بڑا قدم اٹھا لیا جائے تو یہی محبت ناصرف آپ کو بیچ صحرا پہنچا سکتی ہے بلکہ سلاخوں کے پیچھے بھی۔
پاکستان کے شہر بہاولپور کے 21 سالہ رہائشی محمد احمر کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا ہے جب گذشتہ ماہ ممبئی میں اپنے محبوب سے ملنے کی خاطر اُنھوں نے انڈیا، پاکستان سرحد غیرقانونی طریقے سے عبور کی لیکن اپنی منزل پر پہنچنے کے بجائے وہ انڈیا کے ایک صحرائی ضلع میں پہنچ گئے اور اب انڈین سکیورٹی فورسز اُن سے تفتیش کر رہے ہیں اور وہ زیرِ حراست ہیں۔معاملے کی تفتیش کرنے والے افسران کے مطابق گرفتاری کے وقت اُن سے پانچ سو روپے برآمد ہوئے لیکن کوئی اسلحہ نہیں ملا، تاہم سکیورٹی حکام کو احمر سے سُننے کے لیے محبت کی ایک داستان ضرور ملی۔
تفتیش سے منسلک افسران کے مطابق محمد احمر سوشل میڈیا کے ذریعے ممبئی کی رہائشی ایک لڑکی سے رابطے میں تھے۔ بہاولپور میں اُن کے ایک رشتے دار کے مطابق احمر کی دوستی فیس بک پر انڈین لڑکی سے ہوئی اور وہ اس لڑکی سے گھنٹوں طویل گفتگو کرتے تھے۔
انڈین میڈیا کی رپورٹس کے مطابق احمر نے حکام کو بتایا کہ اُنھوں نے ویزا کی درخواست دی تھی لیکن وہ نا منظور ہو گئی جس کے بعد اُنھوں نے سرحد عبور کرنے کا فیصلہ کیا۔
سری گنگا نگر کے پولیس سپرنٹنڈنٹ آنند شرما کے مطابق احمر سے ہونے والی تفتیش سے معلوم ہوا ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے ممبئی میں ایک لڑکی سے رابطے میں تھے اور اُن کی محبت میں گرفتار ہو گئے۔
آنند شرما کے مطابق دوران تفتیش احمر نے بتایا کہ لڑکی نے اُن سے کہا کہ “تم ممبئی آ جاؤ” اور وہ باڑ عبور کر کے اُدھر آ گئے۔
’وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ باڑ عبور کرنے کے بعد وہ ممبئی پہنچ جائیں گے، گویا ممبئی باڑ کے دوسری طرف ہے۔‘
واضح رہے کہ انوپ گڑھ اور ممبئی کے درمیان 1400 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔مقامی ایس ایچ او پھول چند نے اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ چار دسمبر کی رات کو بہاولپور کے قریب راجستھان کے صحرائی ضلع سری گنگا نگر کے انوپ گڑھ علاقے میں مبینہ طور پر انڈیا، پاکستان بین الاقوامی سرحد پار کرنے کے بعد احمر کو انڈیا کی بارڈر سکیورٹی فورس (بی ایس ایف) نے اپنی تحویل میں لیا تھا۔ایس پی آنند شرما نے بتایا کہ ’وہ باڑ پار کر کے انڈیا کی طرف آ گئے تبھی اُنھیں بی ایس ایف کے ایک اہلکار نے دیکھا اور اُنھیں خود کو سکیورٹی فورس کے حوالے کرنے کو کہا، جس پر اُنھوں نے خود کو اہلکاروں کے حوالے کر دیا۔‘ایس ایچ او پھول چند نے کہا ہے کہ گرفتار لڑکے سے پوچھ گچھ اور اُن کے دعوؤں کی تصدیق کے لیے مختلف سکیورٹی ایجنسیوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک مشترکہ تفتیشی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔
اس کمیٹی نے ممبئی کا دورہ کیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ وہ جس لڑکی سے محبت کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں وہ حقیقی شخص ہیں، وہ اُن سے یقینی طور پر رابطے میں تھے اور ان کا مقصد غیر قانونی نہیں تھا۔
پولیس سپرنٹنڈنٹ آنند شرما نے یہ تصدیق کی ہے کہ تفتیشی ٹیم لڑکی سے بھی مل چکی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’ہمیں تقریباً یقین ہے کہ اس میں کوئی ملک دشمن سرگرمی ملوث نہیں لیکن مرکزی ایجنسیاں بھی اپنی
سطح پر تحقیقات کر رہی ہیں
۔ اُنھوں نے بتایا کہ جب یہ ثابت ہو جائے گا کہ وہ مکمل طور پر بے قصور ہیں تب بی ایس ایف کی پاکستان رینجرز کے ساتھ فلیگ میٹنگ ہو گی۔ شرما نے کہا کہ ’اگر وہ (پاکستان) اُنھیں اپنا شہری تسلیم کرتے ہیں اور یہ کہ اُنھوں نے باڑ عبور کی ہے تو اُنھیں واپس کر دیا جائے گا۔‘
اُنھوں نے کہا کہ بصورت دیگر ہم نئی دہلی میں پاکستانی سفارتخانے کو آگاہ کریں گے تاکہ وہ خود اس کیس کو آگے بڑھا سکیں۔
ان کا کہنا ہے کہ تفتیشی ٹیم کے مطابق وہ لڑکی جس کی مبینہ محبت میں احمر نے سرحد عبور کی وہ ’کالج میں پڑھنے والی ایک عام لڑکی ہیں اور اُنھوں نے تسلیم کیا ہے کہ ان کی احمر سے بات ہوتی تھی لیکن وہ (اس محبت میں) اتنی سنجیدہ نہیں تھیں۔‘شرما نے مزید کہا کہ لڑکی کے مطابق ’وہ تفریح کی غرض سے احمر سے بات چیت کر رہی تھیں۔ اُنھوں نے تو مذاق میں کہا کہ ’تم آ جاؤ‘ لیکن کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ واقعی آ جائیں گے۔‘
‎احمر کے ایک کزن ارشد نے صحافی محمد عمران بِھنڈر کو بتایا کہ پاکستان میں احمر کے والد بیمار رہتے ہیں اور کافی عرصے سے وہ بستر کے ہو کر رہ گئے ہیں جبکہ بوڑھی ماں کی آنکھیں بھی اپنے بیٹے کو دیکھنے کی منتظر ہیں۔ احمر کے کزن کے مطابق احمر کے دو بھائی قریبی علاقوں میں محنت مزدوری کرتے ہیں۔
احمر کے کزن نے انڈین میڈیا پر جاری کردہ احمر کی تصویر کی تصدیق کی ہے کہ تصویر احمر کی ہی ہے۔
‎انڈین میڈیا کے مطابق انڈین سکیورٹی حکام نے نوجوان کی اُن کی والدہ اور گاؤں کے نمبردار سے بات کروائی ہے تاہم نوجوان کی رہائی کے لیے تاحال کسی قسم کی کوئی باضابطہ کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکی ہے۔
سرحد پار کرنے کی ’معصوم وجوہات‘
حالیہ دنوں میں یہ سرحد عبور کرنے کا پہلا واقعہ نہیں۔
اگرچہ سندھ سے ملحق ریاست راجستھان اور گجرات میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان سرحد کے بڑے حصے پر باڑ لگی ہوئی ہے لیکن ’معصوم وجوہات‘ کی بنا پر حالیہ دنوں میں سرحد عبور کرنے کے بہت سے واقعات پیش آئے ہیں۔
گذشتہ ماہ بہاولپور سے 30 سالہ علا الدین سری گنگا نگر سرحد عبور کر گئے لیکن پوچھ گچھ کے دوران اُن سے کوئی مشکوک چیز نہیں ملی۔ اگست 2021 میں سندھ کے ضلع تھرپارکر سے ایک نوجوان اپنے گھر والوں کے ساتھ جھگڑا ہونے پر ریاست گجرات کے ضلع کچھ میں داخل ہو گیا۔ اپریل 2021 میں ایک آٹھ سالہ لڑکا بھی غلطی سے باڑمیر سیکٹر میں بین الاقوامی سرحد عبور کر چکا ہے۔
اسی طرح انڈیا سے بھی سرحد عبور کر پاکستان جانے کے معاملے آتے رہتے ہیں۔ نومبر 2020 میں ریاست راجستھان کے باڑمیر سے ایک شخص سرحد عبور کر اس لیے سندھ چلا گیا کیونکہ وہ مبینہ طور پر اپنی محبوبہ کے گھر میں چوری چھپے داخل ہو رہا تھا اور محبوبہ کے گھر والوں نے اسے دیکھ لیا اور وہ گرفتار ہوا۔
اس سے قبل جولائی 2020 میں ریاست مہاراشٹر کے علاقے عثمان آباد کے ایک رہائشی نے کراچی کی ایک لڑکی سے ملنے کے لیے سرحد پار کرنے کی کوشش کی۔ اس شخص کی مذکورہ لڑکی سے آن لائن ملاقات ہوئی تھی اور وہ محبت میں گرفتار ہو کر سرحد پار کرنے کے لیے نکل پڑا۔
وہ گوگل میپ کی مدد سے موٹر سائیکل پر سوار ہو کر گھر سے نکلے لیکن اپنے گھر سے ایک ہزار کلومیٹر سے زیادہ دور سرحد سے ملحقہ ضلع کچھ کے ایک ویران خطے میں پانی کی قلت سے بے ہوش ہوئے اور لوگوں کو بے ہوشی کی حالت میں ملے۔
احمر کا معاملہ تازہ ترین ہے۔ ایس پی آنند شرما نے محاورہ ’حقیقت افسانے سے زیادہ عجیب ہوتی ہے‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اتفاق کی بات ہے کہ ’انوپ گڑھ میں، جہاں احمر نے سرحد عبور کی، وہاں ایک لیلیٰ مجنوں کا مزار بھی ہے۔‘
یہ یقینی نہیں کہ وہاں لیلیٰ مجنوں دفن ہیں لیکن ایک وقت تھا جب سرحد کے دونوں طرف سے ان کے مرید یہاں محبت میں کامیابی کے لیے منتیں مانگنے آیا کرتے تھے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں