A Social Tragedy Written by Syed Fayaz Hussain Gilani 150

‛ایک معاشرتی المیہ ‛‛تحریر: سید فیاض حسین گیلانی

تحریر : سید فیاض حسین گیلانی
‛‛ایک معاشرتی المیہ ‛‛ آج ہم ایک عمومی قومی رویے بارے بحث کرنا چاہتے ہیں۔ اور ملک کے علماء ماہرین نفسیات و عمرانی علوم کے اساتذہ کو دعوت فکر دینا چاہتے ہیں۔ اور وہ یہ کہ عمومی طور پر ہماری قوم کی اکثریت ہمیشہ منفی سوچ ہی رکھتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہمارے معاشرے میں غلط کام کرنے کے مواقع نہ صرف بہت آسان ہیں بلکہ ان غلط کاموں کو معاشرہ بہت آرام سے قبول کر لیتا ہے جبکہ یہاں کوئی بھی نیک کام کرنا نہ صرف بہت ذیادہ مشکل ہے بلکہ ایسی کسی کوشش کو معاشرہ قبول کرنا تو دور بلکہ اس کے راستے میں مشکلات پیدا کرنا اپنا فرض کلی سمجھتا ہے اور ایسے نیک کام کرنے کی کوشش کرنے والے لوگوں کی کردار کشی ان کو مایوس کرنا بہت ضروری سمجھتا ہے۔ سو اسی سلسلے میں آج میں اپنے قارئین کواپنا ایک ذاتی تجربہ بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ میں ذندگی کا جب ایک بڑا حصہ بیرون ملک گزار کر واپس پاکستان آیا تو ہمارے چند دوستوں نے مل کر ایک خیال کو عملی جامہ پہنچانے واسطے مجھے بھی شامل کیا۔ سو دوستوں کی رائے کے مطابق ہم نے تھانہ کی سطح پر ایک غیر سرکاری غیر سیاسی فلاحی تنظیم کو بنا دیا۔ اور یہ واضح اعلان کیا کہ اس تنظیم کا تعلق کسی خاص خاندان مسلک مذہب یا سیاسی گروہ سے نہ ہوگا بلکہ ہماری تنظیم یکجا ہو کر معاشرے کی عمومی برائیوں اور عام عوام کے ساتھ ہونے والی ذیادتیوں کے خلاف ممکنہ طور پر ہر سطح پر جدوجہد کرے گی۔ مشترکہ طور پر تنظیم کا نام ( Demolition of social trubles) تجویز ہوا۔ کہ جس کا مخفف DOSt بنتا ہے اور اگر اسکو اردو میں لکھا جائے تو یہ دوست کی آواز سے بیان ہوتا ہے۔اسی وجہ سے ہماری تنظیم ‛‛ دوست ‛‛ کے نام سے علاقہ میں معروف ٹھہری۔ اسکے بعد ہم نے مختلف سماجی برائیوں جیسے منشیات فحاشی قبضہ گروپ بھٹہ مذدوروں کے حقوق محکمہ مال کی کرپشن وغیرہ پر نہ صرف عوامی سطح پر آواز بلند کرنا شروع کر دی بلکہ اس کے خاتمہ واسطے مختلف سیاسی و انتظامی اداروں سے رابطے بھی شروع کر دئے۔ ہم نے علاقہ میں لوسر کچرا کنڈی پر آواز بلند کی۔ رنگ روڈ سکینڈل کو سب سے پہلے ہم نے بے نقاب کیا۔ پھر کچھ غیر قانونی ہاوسنگ سوسائیٹیوں کے خلاف آواز بلند کی۔ قبضہ گروپ کے خلاف آواز اٹھائی اور تھانہ روات کی حدود میں ایک قبرستان کی مختص شدہ ذمین جو اربوں کی تھی مین روڈ پر واگزار کروائی۔ لیکن اسی دوران مجھے ذاتی تجربہ ہوا کہ عمومی طور پر لوگ ہمارے خلاف ہوتے گئے۔ چلو جو منشیات فروش کرپٹ اور قبضہ گروپ اس سے متاثر ہوئے ان کی جانب سے تو کسی قسم کی کاروائی سمجھ میں آتی ہے کہ ہم نے انکے ناجائز مفادات پر براراست حملہ کیا۔ لیکن عام عوام کی ہرازرسائی سمجھ سے بالاتر ہے۔ یعنی ہماری جدوجہد پر ہم کو بہت سے لوگوں نے خود ساختہ طور پر اسکو ہماری کسی سیاسی حکمت عملی سے تشبعہ دینا شروع کر دیا۔کچھ لوگوں نے غیر ضروری طور پر ہم پر اپنی اہمیت بنانے کا الزام دھر دیا۔ کسی کے خیال میں ہمارا مقصد خدمت خلق نہیں بلکہ کوئی خاص پوشیدہ ایجنڈا تھا۔ میرے واسطے یہ تمام باتیں بہت حیرت ناک اور عجیب تھی۔ اور سچی بات یہ ہے کہ اس تمام صورت حال نے مجھے اور میرے ساتھیوں کو بہت حد تک مایوس کر دیا تھا۔ اسی دوران میں نے اپنے حلقہ احباب میں چند دوستوں سے جب بات کی تو معلوم ہوا کہ اس غیر ضروری مخالفت یا نفرت کا شکار صرف ہم نہیں ہیں بلکہ یہ ہماری قوم کا عمومی رویہ ہے اور چترال سے لیکر کراچی تک رضار سوشل کارکن کم یا ذیادہ اسی صورت حال کا شکار رہتے ہیں۔ اور عام عوام میں سے کچھ لوگ ہر جگہ یہ غلط کام نیکی سمجھ کر کرنا اپنا فرض عین سمجھتے ہیں۔ لیکن پھر ایک اور دوست جو کہ ایک ریٹائر پروفیسر ہیں سے بات ہوئی۔ اور خوش قسمتی سے ان کی بات نے مجھے اور میری تنظیم کو ایک بار پھر ایک نیا جذبہ اور تحرک دیا۔ پروفیسر صاحب نے ہمیں اسکا مثبت پہلو بھی بتایا۔ انہوں نے کہا کہ آپ ان لوگوں کو اہمیت نہ دیں جو بس تنقید برائے تنقید کا پرچار کرتے رہتے ہیں بلکہ ان کی طرف دیکھیں جو آپ کے خاموش حمایتی ہیں۔ اور جب کام ﷲ کی رضا واسطے کرنا ہے تو معاشرے کہ چند ذہنی بیمار لوگوں کو کیا وقعت دینی یا کیا جواب دینا۔ گو کہ ان باتوں نے ہمیں ایک بار پھر عوامی خدمت کے مقاصد سے جوڑ دیا لیکن یہ سوال بہرحال اپنی جگہ موجود ہے کہ آخر ہمارے معاشرے میں یہ رویہ کیوں ہے۔ میں کبھی سوچتا ہوں کہ مثال کے طور پر آپ دیکھتے ہو کہ آپ کے محلے کی سڑک پر گند پڑھا ہوا ہے اور آپ خود ہی جھاڑوں لیکر صفائی شروع کر دیتے ہیں۔ اب ہونا تو یہ چاہئے کہ اہلیان علاقہ آپ کی مدد کریں مدد نہیں کر سکتے تو ذبانی حوصلہ افزائی کریں وہ بھی نہیں کر سکتے تو خاموشی سے اپنا کام کریں۔ لیکن چند ایک لوگوں نے لازماً آپ کے پاس جا کر پہلے ہنسنا ہے اور پھر آپ کو پاگل قرار دینا ہے۔ سو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ عوامی اور سرکاری سطح پر ایسے لوگوں کا ایک سروے کیا جائے۔ نفسیات کے ماہرین کو دعوت دی جائے کہ وہ تحقیق کریں کہ ایسے دماغ اور افکارکیوں پیدا ہوتے ہیں۔ اور پھرایسے دماغوں کا کوئی معقول علاج تجویز کیا جائے۔ کیونکہ ایسے دماغ نہ صرف خود سے ذیادتی کرتے ہیں بلکہ بحثیت مجموعی معاشرے واسطے باعث نقصان ہوتے ہیں۔اسکے ساتھ ساتھ ہم اپنے معمولی سے تجربہ کی روشنی میں یہ گزارش تمام سماجی کارکنوں اور خدمت خلق کا جذبہ رکھنے والے لوگوں سے بھی کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ اگر خدمت مخلوق خالق کی رضا واسطے کرناچاہتے ہیں اور آپ کا مقصد محض عام عوام کی سہولت و داد رسی ہے تو پھر وہ کسی بھی ذہنی مریض شریر عناصر یا احمق لوگوں کی حرکات کو سنجیدہ نہ لیں۔ بلکہ ان کی ایسی حرکات کو نظر انداذ کر کے اپنا مثبت کردار ادا کرتے رہیں۔ یہ کچھ منفی عناصر اور ذہنی مریض آپ کاکچھ نہیں بگاڑ سکتے کیونکہ منفی سوچ وقتی طور پر کچھ مسائل تو پیدا کر دیتی ہے لیکن آخری فتح بہرحال نیک نیتی اور سچے جذبہ کی ہی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ہم عام عوام سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ اگر وہ علاقہ کے کچھ لوگوں کو ذاتی طور پر جانتے ہیں ان کے کردار سے مطمن ہیں تو پھر نہ صرف ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ انکو خراج تحسین پیش کریں بلکہ جو عناصر ایسے خدائی خدمت گاروں کے خلاف اپنے کسی سیاسی معاشرتی خاندانی یا معاشی ناجائز مفادات کے تحت جھوٹ و مکرو فریب کی بنیاد پر غلط پروپیگنڈا کرتے ہیں ان کی مذمت کریں اور ان سے دوری اختیاری کریں۔ ہم یہ سمجھتے کہ یہ بھی ایک نیکی ہی ہے اور خدا کے ہاں یقینا آپ کو اس کا اجر ملے گا۔ fayazsyed111@gmail.com

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں