تعاون/ولید اعجاز اعوان
“”پی این پی نیوزPNP”” کے لیے ایک مسلسل روانی کے سلسلہ کا آگے بڑھاتے ہوئے آج ہم آپکی ملاقات پی آئی اے “”PIA”” پاکستان کی قومی ائیرلائن کے کے سابق سینئر انسٹرکٹر و ایڈوائزر آفیسر ایسوسی ایشن راحت اللہ خان سے کرواتے ہیں جو آج کل کراچی پاکستان سے ریاض عمرہ کی سعادت کے لیے آئے ہوئے ہیں، انہوں نے 1977 میں پی آئی اے “”PIA”” کی قومی ایئر لائن کو جوائن کیا، اور عرصہ 36 سال تک اپنی بے لوث اور گراں قدر خدمات کو احسن طریقہ سے اور ایمانداری کے ساتھ پورا کیا، ان کی خدمات کو ادارہ “”PIA”” ہمیشہ قدر اور عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے، اور دیکھتا رہے گا، اور ان کی ریٹائرمنٹ “”PIA”” کے ادارہ سے بطور سینئر انسٹریکٹر ٹریننک سنٹر کے عہدہ سے ہوئی۔پی آئی اے کی آفیسر ایسوسی ایشن کے “”ایڈوائزر “” جناب راحت اللہ خان نے اپنی گفتگو کے سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب میں میرا آنے کا مقصد عمرہ کی سعادت اور روزہ رسول۔پر حاضری دینا ہے اور میری دعا ہے کہ اللہ پاک میری اس حاضری اور مقدس فریضہ کو قبولیت بخشے،انہوں نے کہا کہ “”PIA”” کی نجکاری کے باعث حکومتی اسکیم ہمیشہ ناپسندیدہ اور زیر بحث ہی رہی ہے۔ اس کی ذمہ دار کلی طور پر “”PIA”” کی اعلی انتظامیہ اور حکمران ہی رہے، جنہوں نے اقرباء پروری کی بنیاد پر نان پروفیشنل اور نا اہل افراد کو ادارے کا ذمیدار بنایا ۔ درحقیقت یہ 1994 کے اوائل سے کے کر آج تک صرف سیاسی مفادات کی بنیاد پر “”PIA”” کی انتظامیہ کا تقرر کیا ۔ جنہوں نے نا اہلیت کی وجہ سے جوپالیسیاں بنائیں وہ زیادہ تر ناقص اور ناقابل عمل تھیں، مزید براں کہ “”PIA”” کے اعلی حکام میں موجود با اثر کرپٹ عناصر بطور خاص انجینئرنگ اور پروکیورمنٹ ڈپارٹمنٹ کی نا اہلی اور کرپشن ادارے کی تباہی کی سب سے بڑی ذمہ دار ہے،جنہوں نے غیر موزوں جہاز خریدے اور بلا ضرورت بڑی تعداد میں پرزے وغیرہ مہنگے داموں خرید کر “”PIA”” کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا ۔ “”پی آئی اے کی انتظامیہ اس بات کیلئے بھی نااہل رہی کہ وہ اپنی آمدن اور اخراجات کے درمیان توازن برقرار رکھ سکے جس کا یہ نتیجہ نکلا کہ پی آئی اے کو ساڈھے پانچ سو ارب روپے کا قرضہ لینا پڑا۔ ادارہ کی آمدن اتنی نہیں ہے جتنی اسے قرض اور سود کی مد میں قسط دینا پڑتی ہے۔ اس کے نتائج اب یہ نکلے کہ پی آئی اے “”PIA”” کے پاس جہازوں کی لیز کے پیسوں کی ادائیگی کے لیے بھی رقم نہیں ہے۔جس کی وجہ سے اکثر و بیشتر ان کے جہازوں کو بیرون ممالک میں ضبطگی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ جنہیں بڑی بے عزتی اور منت سماجت کے بعد واگزار کرایا گیا۔آج بھی ضبطگی کے خطرے کے پیش نظر بعض جہاز بعض ممالک نہیں بھیجے جاتے۔ مزید دیگر ممالک نے ہمارے جہازوں کو “”فیول”” کی رقم کی ادائیگی نہ کیے جانے کے باعث ایندھن دینے سے بھی انکار کرنا شروع کر دیا ہے۔
راحت اللہ خان نے مزید کہا کہ کہ “”PIA”” کی ترقی سے تنزلی تک کے سفر کے دوران کی کہانی میں اس کے ملازمین کا کوئی کردار نہی ہے۔ اس کے عام ملازمین ، حکومت اور انتظامیہ کی بنائی ہوئی پالیسوں پر عمل کرنے پر مجبور ہیں۔ سابقہ حکومتوں نے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو بھی کبھی آزادانہ فیصلے نہیں کرنے دئیے۔ حالانکہ بورڈ کے ممبران کی اکثریت ماہر معاشیات اور پروفیشنل لوگوں پر مشتمل رہی ہے۔سابقہ حکومتوں نے ہمیشہ اقرباء پروری اور اپنے سیاسی مقاصد اور مفادات کے تحت ہی “”PIA”” کو چلانے کی کوشش کی۔ آج بھی اگر “”PIA”” کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو اس کی موجودہ نااہل انتظامیہ کی جگہ میرٹ کی بنیاد پر اہل انتظامیہ کی سلیکشن اور انتظامی پالیسوں کے اندر ناگزیر تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ اس قومی ادارہ کو تباہی سے بچانا اب وقت کی اہم ترین ضرورت بن گئی ہے.