تعاون/ولید اعجاز اعوان،پی این پی نیوز ایچ ڈی
محترمہ سیدہ نمیرا محسن شیرازی بیک وقت ایک نہیں لاتعداد خوبیوں کی مالک کا اعزاز رکھتی ہیں جو کسی بھی تعارف کی محتاج نہیں اور انہیں “”PNP”” کے ادارہ اور صحافتی ٹیم سے منسلک ہوئے ایک سال کا عرصہ ہونے لگا ہے۔ وہ اردو ادب کی گرانقدر خدمات کے حوالے سے “”پی این پی”” کا درخشندہ ستارہ کی مانند بھی ہیں آج سے ایک سال قبل انہوں نے “”PNP”” کی وسیع تجربہ کی حامل صحافتی ٹیم کو جوائن کیا۔ وہ ماہر تعلیم، افسانہ نگار، شاعرہ ادیبہ، ماہر نفسیات، اور دیگر کئی خداداد صلاحیتوں سے بھی مزین ہیں۔
اپنی زندگی کے اوراق کو پلٹتے ہوئے سیدہ نمیرا محسن شیرازی نے کہا کہ میرا تعلق ذندہ دلانے شہر لاہور کے ایک ادبی اور تعلیمی گھرانے سے ہے۔ پاکستان معرض وجود میں آنے کے بعد ہم پاکستان کے شہر شکر گھڑہ میں آکر آباد ہو گئے۔ میرے والد گرامی سید محمد محسن شیرازی جو ماہر تعلیم بھی تھے جو پروفیشن کے لحاظ سے شعبہ طب ڈاکٹری سے بھی منسلک تھے۔ اور ان کی سرکاری ملازمت کے حوالے سے پاکستان کے مختلف شہروں میں جاب کے سلسلہ میں ملازمت کی تعیناتی کے امور طے کرتے رہے۔میری جائے پیدائش بھی لاہور ہے اور ہم تین بہنیں ہیں۔ میرے والد گرامی کو ہم تینوں بہنوں کی قابلیت اور اعلی صلاحیتوں پر فخر اور ناز تھا اور وہ ہمیں اپنے بیٹوں سے منصوب کیا کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ میری بیٹیاں نہیں بلکہ میرے بیٹوں کا مقام رکھتی ہیں۔ مجھے ان کی قابلیت پر فخر اور ناز بھی ہے۔ جو میرا اور میرے سارے خاندان کا نام بھی روشن کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔ میری ابتدائی تعلیم کا سلسلہ۔لاہور کے ساتھ جڑا رہا۔ ہم اہل سنت سے وابستہ تھے اس لئے گھر کے ماحول۔کے اندر پردے اور اسلامی روایات پر بڑی سختی کے ساتھ عمل کیا جاتا تھا۔ اپنی کم عمری۔میں ہی صرف تین سال کی عمر میں ہی قرآن پاک کی تعلیم کا سلسلہ۔مکمل کر لیا ابھی میری عمر صرف سات سال کی ہی۔ہو گئی کہ شیخوپورہ میں ضلعی مقابلہ “”حسن قرآت”” کے مقابلہ۔میں حصہ لیا اور اللہ کے فضل و کرم سے پہلا انعام حاصل کیا۔ 1995 میں ہی گورنمنٹ کالج کوئین سے امتیازی نمبروں سے بیچلر اور اردو ادب اور ماہر نفسیات کی اعلی ڈگری حاصل کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ اسکول سے لے کر کالج تک میں ہونے والے نعت خوانی اور درس قرآن کے مقابلوں میں بھر طور پر حصہ۔لیا اور کئی “”گولڈ میڈل “” حاصل کئے اب تک تقریبا” مختلف مقابلوں کے دوران 22 سے زائد “”گولڈ میڈل”” کے اعزازات حاصل کر چکی ہوں۔ جو میرے اور میرے سارے خاندان کے لئے بڑے ہی اعزاز اور خوش قسمتی کی بات بھی ہے۔
سیدہ نمیرا محسن شیرازی نے کہا کہ اردو ادب اور شعروشاعری سے میرے شوق اور لگن کا سلسلہ مجھے میرے خاندان کی طرف سے وراثت کے طور میں ملا کیونکہ میرے والد گرامی بھی معروف اور بہت بڑے شاعر تھے۔ اردو ادب کا ورثہ بھی انہی کی بدولت میرے اندر جاگزین ہوا۔ اور انہی کی سربراہی اور حوصلہ افزائی سے میری تربیت اردو ادب کے ماحول کی طرف منتقل ہوئی۔ پہلی۔نظم بھی میں نے پہلی جماعت میں لکھی ایک بچے کی خاندان میں ولادت کے پر مسرت موقع پر نظم کی آمد ہو گئی اور پھر اس کی۔کامیابی کا سلسلہ آگے ہی بڑھتا ہی چلا گیا۔ اور شاعری کا میرا شوق دوران کالج عملی طور پر آگے کی طرف ترقی سے ہمکنار ہوتا چلا گیا۔ بہت سارے اردو ادب کے شاعری کے مقابلوں میں بھی حصہ لیا۔ اور “”بزم ادب”” کی محافل میں لگاتار شرکت کی۔ امجد اسلام امجد مرحوم کا شمار میرے استادوں میں ہوتا ہے ایک اردو ادب کے حوالے سے شعری نششت کے دوران انہوں نے میری شاعری کے چند اشعار کی اصلاح بھی کی۔ اور میری حوصلہ افزائی بھی کی۔ امجد اسلام امجد مرحوم میرے لئے اور میری شاعری کے حوالے سے استاد کا بھی مقام رکھتے ہیں۔
شیخوپورہ میں اپنی خالہ کے بیٹے کے ساتھ 1994 میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہو گئی۔ جو اعلی تعلیم یافتہ ہیں اور ایم بی اے کی اعلی تعلیم یافتہ شخصیت کے مالک ہیں۔
سیدہ نمیرا محسن شیرازی نے مزید بتایا کی اپنی تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ مجھے شعبہ صحافت میں بھی بڑی دلچسپی تھی انہی ادوار میں “” روزنامہ نوائے وقت”” لاہور سے بچوں کے لئے شائع ہونے والا میگزین “”پھول کلب”” جس کے سرپرست اعلی اختر عباس تھے ان کی سربراہی میں بطور ایڈمنسٹریشن 2000 سے 2003 تک کام۔کیا۔ مختلف اسکولوں اور بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں کے حوالے سے بچوں کے لکھے ہوئے خصوصی مضامین اور تحریروں کی اشاعت کی بھی نگرانی کی۔
سیدہ نمیرا محسن شیرازی نے کہا کہ میں نے اردو ادب میں سال 2004 کے دوران امتیازی نمبروں سے اعلی امتیازی ڈگری حاصل کی
اس کے بعد میں اپنی فیملی کے ساتھ سعودی عرب آ گئی۔ میرے والد گرامی۔کی وفات کے بعد میری زندگی کا رخ ہی بدل گیا۔ ہر وقت ہر لمحہ انکی یاد شدت کے ساتھ ستاتی رہی اور انکی کمی میری زندگی میں مسلسل کمی کا احساس ابھرتا رہا جو آج بھی میرے اندر موجود ہے۔ اس کے بعد میں نے اپنی زندگی کو مصروف رکھنے کا پختہ فیصلہ کر لیا دمام میں ہی ایک تعلیمی ادارے میں بطور وائس پرنسپل جاب شروع کر دی۔ ایک سال تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ میں نے دمام کے اندر ہی “”حدیث سائنس”” جو سال 2009۔کے دوران نمائش کروائی جس میں پاکستانی ہندوستانی اور بنگلہ دیشی طالبات نے حصہ لیا۔ اس نمائش میں بچیوں نے کپڑے کے تیار کردہ اپنے خوبصورت شاہکار نمونے بنائے اس نمائش میں تقریبا” 40 بچوں نے حصہ لیا۔
سیدہ نمیرا محسن شیرازی نے بتایا کہ اب تک اردو ادب اور شعر و شاعری کے حوالے سے اتنا لکھا ہے کہ اگر اس کو اکھٹا کروں تو میری چار سے پانچ کتابیں چھپ جائیں۔ اردو شاعری میں اپنیباردو شاعری میں اپنا تخلص “” محسن”” لکھتی ہوں، اردو ادب کی طرف میری زندگی کی رفتار اسقدر تیز رہی کہ زندگی کا بیشتر حصہ اردو ادب کے لئے ہی وقف کر دیا میں نے اب تک اردو ادب کے حوالے سے یادگار 500 سو سے زائد افسانے لکھے ہیں اور افسانوں کا بنیادی مقصد بھی انسانی زندگی کے اردگرد گھومنے والے بنیادی اور معاشرتی مسائل کی نشاندھی کی سوچوں ہی ابھرتے ہیں۔ افسانوں کو ہمیشہ حقائق کی اصل پہچان بن کر ہی پیش کیا کہ جن کو پڑھنے والا یہ ہی محسوس کرتا ہے کہ یہ ہی میرے گھر کے در و دیوار کی اصل کہانی ہے۔ میں اپنے افسانوں کے اندر بھی معاشرتی ماحول اور حقیقت کی مکمل عکاسی کو ہی نزدیک رکھتی ہوں۔ معاشرے کے ہر فرد کی اندرونی کہانی کو سمجھنے میں تھوڑا وقت ضرور لگتا ہے۔ مگر انسانوں کے بنیادی مسائل اور سوچوں کو سمجھنے کی صلاحیت اللہ پاک نے میرے اندر پختگی کے ساتھ بھری ہوئی ہے۔ میں زندگی کے حقیقی خواب دیکھنے کی قائل ہوں مصنوعی زندگی سے ہمیشہ کوسوں دور ہی رہتی ہوں اور حقائق پسند لوگوں کو ہی پسند بھی کرتی ہوں۔ میں زندگی کے اصل خواب ہی لکھتی ہوں اور ان خوابوں کی تعبیروں پر بہت ہی کم یقین رکھتی ہوں۔
سیدہ نمیرا محسن شیرازی نے مزید کہا کہ میری کوشش اور ارادہ ہے کہ اگلے سال میں اپنی نظموں اور غزلوں کے پہلے مجموعہ کلام کو کتابی شکل دے دوں۔اللہ تعالی کی ذات میری راہ نمائی فرمائے تو یہ ادھورا کام۔میں ضرور مکمل کروں ۔
سیدہ نمیرا محسن شیرازی نے کہا کہ سال 2017 کے دوران میری بیٹی نے “”READ PAKISTAN”” کے نام سے ایک “”NGO”” کا آغاز کیا جس کا بنیادی مقصد یہ ہی تھا کہ نوجوان نسل کے اندر کتب بینی اور پڑھنے کے شوق کو اجاگر کیا جائے۔ میں 2019 میں اس ادارے کی وائس پریزیڈنٹ شپ سے منسلک ہو گئی۔ اور بچوں کے اندر کتابوں کو پڑھنے کے شوق کو تقویت دینے کے لئے بچوں کے ذہنوں کو اس طرف مائل کرنے کی بھرپور کوشش شروع اور اس مقصد میں مجھے میری توقعات سے کہیں زیادہ کامیابی بھی حاصل ہوئی۔ اور اس وقت مجھے بطور “”READ PAKISTAN”” کے عہدہ پر بطور ایڈوائزر ترقی دے دی گئی ہے۔اور یہ ادارہ دنیا بھر کے اندر 70 سے زائد ممالک میں اپنے دائرہ کار کو پھیلا چکا ہے۔ اور اس کے علاوہ “”انٹرنیشنل وومن پیس گروپ”” کی سعودی عرب میں مجھے “”امن کی سفیر”” کے اعزاز سے بھی نواز جا چکا ہے اور میں اس عہدے پر بطور ایڈوائزر کام کر رہی ہوں ۔ جو میرے خاندان اور میرے بچوں کے لئے بطور اعزاز بھی ہے۔ اس وقت میری اولاد نرینہ۔میں دو بیٹیاں اور ایک۔بیٹا ہے میرا بیٹا شعبہ انجینئرنگ سے منسلک ہے اور حفظ قرآن بھی ہے۔
سیدہ نمیرا محسن شیرازی نے کہا کہ آج سے تقریبا” ایک سال قبل میں نے “”PNP”” کی صحافتی ٹیم کو جوائن کیا۔ جس کی باقاعدہ طور پر میرے محسن “”PNP”” کے میںنجنگ ڈائریکٹر زبیر خان بلوچ نے مجھے شامل ہونے کی خصوصی دعوت دی۔ اور اس وقت سے لے کر آج تک ان کی راہ نمائی میں میری لاتعداد نظمیں غزلیں اور مختلف موضوعات پر یاد گار افسانے شامل اشاعت کئے جا چکے ہیں۔ میں زبیر خان بلوچ صاحب اور انکی صحافتی ٹیم۔کی ہمیشہ سے شکر گزار ہوں۔اور ہر قدم پر انہوں نے میری حوصلہ افزائی کو مدنظر رکھا ہے۔ میری یہ دعا بھی ہے کہ ادارہ “”PNP”” دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرے اور اس کی ترقی کا دائرہ کار مزید آگے کی طرف ہی بڑھتا چلا جائے
آمین ثم آمین
سیدہ نمیرا محسن شیرازی نے اپنے خصوصی پیغام میں کہا کہ میری زندگی کی یہ آخری خواہش ہے کہ میں اپنے رب کے پاس جانے سے قبل اپنے رب کریم۔کو خوب خوب رازی کر کے جاوں اور میری زندگی کے تمام ادھورے کام بھی اپنی حیات میں ہی مکمل کر جاوں۔ اور جانے سے قبل اپنی اولاد کو بھی یہ بات بتا دوں کہ ایک۔عورت کتنی عظیم اور با ہمت ہوتی ہے کہ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے اپنی ساری زندگی نیک مقاصد کے حصول۔پر قربان کر دیتی ہے مگر اپنے نیک۔مقاصد کے حصول میں کبھی تزلزل کا شکار نہیں ہوتی۔