سوچتی ہوں تمہیں ایک خط لکھوں
اور اپنا حال دل کہہ دوں
وہ ساری باتیں
جو نہ تم نے سنیں
اور ہمیشہ کی طرح نہ میں کہہ سکی
سب کورے ورق پر
نقش کر دوں
پھر سوچتی ہوں
ایک ایسا تعویذ بن دوں
جب تم سفر پر ہو
تو
وہ
تمہاری کار کے درمیانی
پیچھے رہ جانے والی شبیہ کے
معکوس پر لٹکتا رہے
ویسے ہی
جیسے میری جان
تمہاری جدائی میں
تمہاری بے نیازی کے
پھانسی گھاٹ پر لٹکتی ہے
جس میں میری روح جھولتی رہے
شاید کہ کسی سڑک پر پڑے
پتھر سے ٹکرا کر تمہاری نظر
کچھ دیر کو بہکے
اور میرا خیال آئے
پھر میں سوچتی ہوں
اس بڑے نیلے آسمان کو
اک سنہری فیتے سے باندھ کر
کسی بادل کی اوٹ میں چھپ جاوں
اور جب تم صبح دم
اپنی کھڑکی سے
اگتا سورج دیکھو
تو شاید
وہ سنہری دل بھی
تمہاری نظر کو پالے؟
مگر پھر میں ہنس کر
سارے خیالوں کو
چڑیوں کے پروں سے باندھ دیتی ہوں
اور خود سے کہتی ہوں
تمہارے دیس کوئی
نامہ بر نہیں جاتا
215