ساحل کنارے لہروں کے قدموں میں پڑی اجلی ریت نے سکوت سے گھبرا کر گہری سانس لی، مگر اسکی سانس بند تھی۔ اسے لگا کہ پوری فضا ایک لمباسا پلاسٹک کا تھیلا ہے جو کسی دشمن نے اسکی گردن میں کس دیا ہے۔ سمندر رات سے اپنے جگر گوشوں کی لاشیں اسکے سینے پر سجائے جا رہا تھا۔ ساحل کنارے کی اجلی ریت پر چلنے والے سیاح رنگ برنگے سیپ، ساگر ستارے اور جڑی بوٹیاں دیکھ دیکھ بولائے جا رہے تھے۔ کسی کو اپنے قدموں میں ذرہ ذرہ ریت کی کوئی پرواہ نہ تھی۔ کسی نے خاک گرائی، کوئی آنکھوں میں کیل گاڑ کر خیمہ لگانے لگا۔ اف اتنا درد یا شاید درد، دکھ، اور رنج کا ملا جلا کوئی شربت تھا جو اس نے بے صبری سے ایک ہی گھونٹ میں نگل لیا۔ ایک تھکے سمندری بگلے نے جونہی اس کی گردن پر محبت سے اپنے سخت پنجے گاڑے، اسکی شیشہ آنکھیں شبنم گرانے لگیں۔ کوئی محبت کرے یا نفرت ساحل کنارے ذرہ ذرہ ،بھیگی، ٹوٹی اجلی ریت کا مقدر نہیں بدلے گا۔ اور ایک لہر نے بڑھ کر اسکی آنکھوں پر اپنے ہاتھ رکھ دیے۔
228