غزل : نمیرہ محسن
بساط زیست پہ چند مہرے پھیلانے کو
دیکھو میرے اپنے پھر آئے مجھے مٹانے کو
حرف غلط ہی تو ہوں ، اور کیا ہوں میں
صرف نظر ہی کافی تھا مجھے گرانے کو
تمام عمر رہا احباب کا جو موضوع سخن
وہ بدنصیب یہی پا گیا سنانے کو
انہیں شکوہ ہے میری تند خوئی کا
نغمے سے غرض کہاں کب کسی دیوانے کو
302