فآ طمہ قمر پاکستان قومی زبان تحریک 279

پاکستان قومی زبان تحریک کے زیر اہتمام یوم ولادت قائد اعظم پر ایک انتہائی فکر انگیز مذاکراتی نشست منعقد ہوئئ

سٹاف رپورٹ (پاک نیوز پوائنٹ)
گزشتہ روز چوبیس دسمبر کو پاکستان قومی زبان تحریک کے زیر اہتمام یوم ولادت قائد اعظم پر ایک انتہائی فکر انگیز مذاکراتی نشست منعقد ہوئئ جس کی صدارت پاکستان قومی زبان تحریک کے مرکزی صدر محترم جمیل بھٹی صاحب نے کی۔ مہمان خصوصی پاکستان جاگو تحریک کے صدر ‘ دانشور’ کالم نویس’ محترم قیوم نظامی تھے۔ بانئ پاکستان سے محبت کرنے والے جن لوگوں نے اس نشست میں شرکت کی۔ان میں جاگو تحریک پنجاب کے سیکرٹری جنرل ایم اے قریشی’ پروفیسر آمنہ اطہر’ مقصود چغتائی’ معظم احمد’ انجنئر عبدالوحید’ محمد ذیشان بیگ’ ضماد گریوال’ ولایت احمد فاروقی’ بابر نسیم بٹ’ سعدیہ ہاشمی’ پروفیسر وردہ نایاب’ پروفیسر ثریا شاہد’ پروفیسر سلیم ہاشمی’ فا طمہ قمر’ فیض رسول’ لیلمی خان’ رانا زاہد خان’ شیخ محمد ادریس’ رانا امیر احمد خان ‘ پروفیسر مظہر اقبال’ ایڈووکیٹ یوسف فاروق’ منشاء قاضی’ قاری محمد فاروق شامل تھے۔ محترم قیوم نظامی نے قائداعظم کے مضبوط کردار’ جراءت’ اور اہنی عزم پر بہت خوبصورت گفتگو کی۔ سٹیزن کونسل کے صدر محترم رانا امیر احمد خان نے قائد اعظم سے اپنی محبت کا اظہار اپنی زندگی کے واقعات سنا کر کیا۔ رانا امیر احمد خان نے پاکستان کو بنتے ہوئے دیکھا’ ٹوٹتے ہوئے دیکھا’ اب بکھرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں. پروفیسر سلیم ہاشمی نے کہا کہ جو لوگ قائد اعظم کے ڈھاکہ کے اردو زبان کے بیان کو پاکستان کے ٹوٹنے کی وجہ بتاتے ہیں ۔وہ قوم سے جھوٹ بولتے ہیں۔ اردو ہی وہ زبان ہے جو پورے پاکستان کو متحد رکھ سکتی ہے۔ نامور خطیب’ ادیب ‘ کالم نویس محترم منشاء قاضی قائد اعظم کو ہمیشہ کی طرح پرجوش اور خطیبانہ انداز میں خراج تحسین پیش کیا۔ نفاذ اردو کیلئے پاکستان قومی زبان تحریک کی کوششوں کو بہت سراہا۔ شریف اکیڈمی جرمنی کے ڈائریکٹر محترم ولایت فاروقی’ نے قائدا عظم کو منظوم خراج تحسین پیش کیا۔ پاکستان جاگو تحریک کی پنجاب کی صدر پروفیسر آمنہ اطہر’ نے قائد اعظم کی اصول پسندی اور دیانتداری پر ان کی زندگی کی مثالوں سے ثابت کیا۔ جاگو تحریک کی عہدیدار محترم لیلمی خان نے کہا کہ موجودہ پاکستان وہ نہیں ہے جو قائد کا پاکستان ہے۔ پروفیسر ثریا شاہد نے قائد اعظم کو منظوم خراج تحسین پیش کیا۔ پروفیسر مظہر عالم’ نے قائد اعظم کی آواز میں تقریر سنا کر ماحول پر کو انتہائی رقت آمیز بنادیا۔ جاگع تحریک کے صوبائی عہدیدار محترم آصف صاحب نے عالمی مشاہیر کی نظر میں قائد اعظم کے عظیم کردار کو پیش کیا۔ پاکستان قومی زبان تحریک کی رہنما فاطمہ قمر نے کہا کہ اج کے دور میں وہ ادارے و شخصیات انتہائی لائق تحسین ہے جو بانیان پاکستان کی یاد میں نشستیں منعقد کررہی ہیں اس لئے کہ احسان فراموش حکمرانوں نے بانیان پاکستان کانام لینا “جرم” بنادیا ہے۔ لیکن قوم اپنے محسنوں کو ہمیشہ یاد رکھتی ہے۔ قائد اعظم ہمارے دلوں میں بستے ہیں۔ قائدا عظم وہ عظیم رہنما تھے جن کے کردار کی گواہی ان کے بدترین مخالف بھی دیتے تھے۔ قائدا عظم وہ عظیم رہنما تھے جنہوں نے اپنی جان ‘ مال’ صحت ‘ نجی زندگی کو ایک نظرئیے کے حصول کے لیے قربان کردیا۔ وہ نظریہ صرف اور صرف اسلام تھا۔ قائد اعظم پاکستان کو اسلامی فلاحی مملکت بنانا چاہتے تھے ہم فرامین قائد ہی کی روشنی میں نفاذ اردو فیصلے پر عملدرآمد کے لئے کوشاں ہیں اور ان شاءاللہ! اس پر عملدرآمد کر کے ہی دم لیں گے ۔ پاکستان قومی زبان تحریک کے مرکزی صدر محترم جمیل بھٹی صاحب نے کہا کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک عام پاکستانی کے معاشی حالات میں بہتری ائی ہے ۔ قیام پاکستان کے وقت گاڑیاں’ موٹر سائیکلیں’ سائیکلیں انتہائی قلیل تعداد میں تھیں۔لیکن اب ہر بندے کے پاس کم اذکم اپنی سواری ہے۔ پھر بھی ہم ناشکری قوم ہے’ انہوں نے مذید کہا کہ قائد اعظم ایک ویثرنری لیڈر تھے’ ولی اللہ تھے جو دشمنوں کی چالوں کو اپنی بصیرت و ذہانت سے سمجھ گئے تھے اس لئے انہوں نے ہندوؤں اور انگریزوں کی غلامی سے نجات کے لئے ایک علیحدہ مملکت کی بنیاد رکھی۔ ہم پاکستان میں نفاذ اردو فیصلے پر عملدرآمد کے لئے قائد اعظم کے فرامین کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔ خظاب کے اختتام پر محترم جمیل بھٹی صاحب نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔مذاکرے کے اختتام محترم فیض صاحب نے دعا کروائی یوں نشست برخاست ہوئئ ۔ دوران نشست مغرب کی نماز کے وقفے کے بعد یوم ولادت قائد اعظم کی مناسبت سے کیک کاٹا گیا۔شرکاء کی چائے سے تواضع کی گئ۔!
قائد اعظم کی اس فکری نشست کو کامیاب بنانے پر ہم اپنے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ پاکستان کی تمام تنظیموں اور اداروں سے ملتمس ہیں کہ وہ بھی اپنے اپنے اداروں میں قائدا عظم کے حوالے سے فکری نشست رکھیں۔اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بالخصوص نوجوانوں کو افکار قائد سے روشناس کروائیں کہ قائدا عظم جیسی عظیم ‘ مدبر اور زہین شخصیت’ دولتمند وکیل نے آخر کس مقصد کے لئے پاکستان کا مقدمہ لڑا؟ کس چیز نے ان کو بے چین کیا کہ وہ اپنے آرام’ صحت ‘ بیماری کو بالائے طاق رکھ کر مرتے دم’ زندگی کے آخری سانس تک اپنے مقصد سے جڑے رہے! جب کہ ان کو اپنی بیماری کا بھی علم تھا کہ ان کی زندگی چند روزہ ہے!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں