Western capitalist democracy 332

مغربی سرمایہ دارانہ جمہوریت تحریر : ایاز صفدر سندھو ایڈووکیٹ ہائی کورٹ (امیدوار برائے صدر بار ایسوسی ایشن فیروزوالہ)

تحریر : ایاز صفدر سندھو ایڈووکیٹ ہائی کورٹ (امیدوار برائے صدر بار ایسوسی ایشن فیروزوالہ)
ہم آج جس جمہوریت میں زندہ ہیں اس کا پورا نام “مغربی سرمایہ دارانہ جمہوریت” ہے۔ اس مغربی سرمایہ دارانہ جمہوریت میں ہمارے اردگرد ہر چیز کو سرمائے نے غلام بنا رکھا ہے۔ ہم سے یہ پیسے کی محدود جمہوریت متعارف کروائی گئی ہے۔ اگر آپ کے پاس پیسے ہیں تو آپ کے لیے جمہوریت ہے کہ آپ جس مرضی سکول سے تعلیم حاصل کریں۔ جس گاڑی پہ چاہے سفر کریں۔ جس ہسپتال سے چاہیں علاج کروائیں۔ جہاں چاہیں رہائش اختیار کریں لیکن اگر آپ کی جیب میں پیسے نہیں ہیں تو آپ مجبور محض ہیں۔ ظاہر ہے ہمارے معاشرے میں غریب لوگوں کی اکثریت ہے ان میں کافی سارے غربت کی لکیر پر سفید پوشی کی زندگی گزارتے ہیں۔ ان سب مجبور محض انسانوں کو مغربی سرمایہ دارانہ جمہوریت میں ایک ایسا ماحول دیا جاتا ہے کہ وہ خود کو انسان کی بجائے کوئی چیز سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ ووٹر بھی خود کو کوئی چیز سمجھتا ہے جسے ایک لیڈر آئے گا اور اٹھا کر کسی اونچی جگہ پر رکھ دے گا۔ دوسرا آئے گا تو وہاں سے اٹھا کر اپنے پاس رکھ لے گا۔ میں نے کئی دفعہ وکلاء کی گفتگو میں مشاہدہ کیا ہے کہ جب کوئی دوست وکیل کہہ رہا ہوتا ہے کہ میں اکیلا کیا کر سکتا ہوں۔ سسٹم بہت مضبوط ہے۔ اور میرا ووٹ صرف ایک۔۔۔۔
یقین کیجئیے یہ ایک فریب ہے جو مغربی سرمایہ دارانہ جمہوریت میں ووٹر کے ذہن پر مسلط کیا جاتا ہے کہ ایک ووٹر کچھ نہیں کر سکتا۔ ایک مسلسل پروپیگنڈہ ہے کہ عام شہری کچھ کرنے کے قابل نہیں، عوام جاہل اور بے بس ہیں۔ اسی پروپیگنڈہ، جھوٹی تعلیم اور ماحول کے زیر اثر شہری نے خود کو چیزیں سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ عوام ذہنی طور پر بےبس ہو گئے ہیں بالکل ایک کرسی اور میز کی طرح جسے جب تک کوئی ہلائے گا نہیں اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتی۔ مغربی سرمایہ دارانہ جمہوریت سیاست میں فکری مغالطے بھی گھڑتی ہے۔ وکلاء کے درمیان آجکل ایک فکری مغالطہ عام ہے کہ پہلے کسی نہ کسی طرح اقتدار حاصل کیا جائے۔ اقتدار میں آنے کے بعد نظام میں بہتری کی جا سکتی ہے۔ یہ بھی اسی جھوٹی تعلیم کا دوسرا رخ ہے کہ عام شہری یا عام وکیل بالکل بے بس ہے۔ اپنی بے بسی دور کرنے کے لیے پہلے آپ عام سے خاص طبقے میں داخل ہوں یعنی اقتدار میں آئیں پھر آپ کا بس چلنا شروع ہو گا تو پھر جو مرضی اصلاحات اور بہتری لے آئیں۔ یہ عام وکلاء کی بے قدری کی تعلیم ہے۔ کہ جب تک وہ اقتدار میں نہیں آتے اس وقت تک وہ یہی کہتے رہیں کہ سب کچھ غلط ہو رہا ہے، انصاف بک رہا ہے، ہمارے نمائندے کمیشن ایجنٹ ہیں، لیکن میں کیا کر سکتا ہوں؟۔۔۔۔۔ اور یوں اکثریت کی پیشہ وارانہ زندگی اسی گلے سڑے نظام کی نذر ہو جاتی ہے۔
ہمیں سب سے پہلے ذہنی غلامی کی اس تعلیم کے خلاف لڑنے کی ضرورت ہے۔ آپ خود کو کوئی چیز، شے یا بے قدر جنس سمجھنا چھوڑیں۔ وکلاء کو اپنی بے قدری کی تعلیم کو ٹھکرا دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے عمل اور اپنے ووٹ کی قدر سے شناسا ہونا ہے۔ جو شخص اپنے ووٹ کی طاقت کو درست استعمال کرنے سے قاصر رہے گا وہ اقتدار میں آ کر بھی اختیار کو درست استعمال کرنے سے قاصر رہے گا بلکہ اب تو کئی دفعہ مشاہدے میں آ چکا ہے کہ مجبور محض ووٹر پہلے مجبور محض یا بے زبان امیدوار بنتا ہے اور پھر مجبور محض عہدیدار بن جاتا ہے لیکن کرپٹ سسٹم کو چیلنج کرنے قابل نہیں بن پاتا کیونکہ ذہنی غلامی گرفت وہیں موجود رہتی ہے۔۔۔۔۔ اس فکری مغالطے سے نکلیے کہ کوئی اوتار یا ہیرو آ کر ہمارے حالات درست کرے گا۔ اپنے حالات آپ نے خود بدلنے ہیں۔ آپ اپنے ووٹ کا درست شعوری استعمال کریں یہی اس کرپٹ سسٹم کی شکست ہے۔ ہمارا سفر “مغربی سرمایہ دارانہ جمہوریت” سے “عوامی جمہوریت” کی طرف شروع ہو چکا ہے۔ ہم سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں