ایسے سافٹ ویئر کی مدد سے کوئی شخص 252

ایسے سافٹ ویئر کی مدد سے کوئی شخص کسی دوسرے کے فون کے میسجز، لوکیشن، تصاویر اور فائلز تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔

(سٹاف رپورٹ،تازہ اخبار،پاک نیوز پوائنٹ )

حتیٰ کہ فون کے قریب ہونے والی گفتگو بھی سن سکتا ہے.
امریکہ کے مشرق میں ایک اچھے کیتھولک خاندان میں پلی بڑھی تھیں۔ ہر اتوار ان کے گھر رات کے کھانے کی دعوت ہوتی تھی۔ ان کے والدین کی شادی شدہ زندگی اچھی تھی اور وہ اپنے تعلقات میں بھی ایسی ہی عزت اور قربت دیکھنا چاہتی تھیں۔
جب ان کی عمر 20 سال سے زیادہ ہوئی تو انھیں اپنا شریک حیات مل گیا اور ایسا لگا جیسے یہی سچی محبت ہے۔
مگر ان کی زندگی سے رومانس بہت جلد ختم ہو گیا اور یہ 25 سالہ بدسلوکی اور استحصال کی کہانی میں تبدیل ہوگیا۔ پہلے انھیں بُرے ناموں سے پکارا جانے لگا۔ پھر ان کے شوہر نے ان کے مالی معاملات، نقل و حرکت اور تینوں بیٹوں پر مکمل کنٹرول جما لیا.
ان کے خاوند کو ایسی نوکری پر اعتراض تھا جہاں دوسرے لوگوں سے رابطہ ہو۔ ان کے کمپیوٹر استعمال کرنے پر پابندی لگا دی گئی.
وہ یاد کرتی ہیں کہ ’وہ مجھے روز موٹی کہتے تھے۔ غصے میں وہ مجھے گھر سے باہر نکال کر دروازہ بند کر دیتے تھے۔‘
مالی استحصال روز بروز بڑھتا گیا۔ پہلے ان کی صفائی کی ملازمت سے ان کی تنخواہ چھین لی گئی۔ پھر ان کے شوہر نے ان کا سوشل سکیورٹی نمبر استعمال کرتے ہوئے ان کے نام پر کریڈٹ کارڈ حاصل کر لیا۔
چھ سال قبل ماریہ یہ سن کر ٹوٹ گئیں کہ وہ انھیں زندہ دیکھنا نہیں چاہتے۔ اپنے خاندان اور چرچ کی مدد سے انھوں نے آہستہ آہستہ اس شادی سے باہر نکلنے کا منصوبہ بنا لیا۔
ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں جب ان کا گروی گھر چلا گیا تو وہ اپنی بہن کے پاس رہنے لگیں۔ انھیں پہلی بار لیپ ٹاپ مل گیا اور انھوں نے ایک فیس بُک اکاؤنٹ بنایا۔ وہ ڈیٹنگ کرنا شروع ہو گئیں۔
لیکن جلد ایسا ہوا کہ ان کے سابقہ شوہر ان کے نئے پارٹنر کو ان کے ذاتی میسجز دکھانے لگے۔ ان کے سابقہ شوہر ہر اس جگہ پہنچ جاتے جہاں وہ جاتی تھیں۔
ایک بار انھوں نے اچانک موٹر وے پر انھیں اپنے پیچھے کار پر آتے دیکھا۔ وہ ڈر گئیں کہ ان کا پیچھا کیا جا رہا ہے اور شاید ان کے پاس بندوق بھی ہوگی۔ اس ڈر سے انھوں نے پولیس سے رابطہ کر لیا۔
اگرچہ انھوں نے اپنے سابقہ شوہر کے خلاف مقدمہ دائر نہیں کیا مگر پیچھا کرنے کے واقعات ختم ہو گئے اور انھوں نے ان سے مزید دوری اختیار کر لی۔
اس دوران انھیں معلوم ہوا کہ ان پر ایک سافٹ ویئر کے ذریعے جاسوسی کی جا رہی تھی۔ وہ “سٹاکر ویئر” کے متاثرین میں سے تھیں.
سٹاکر ویئر ایسا سافٹ ویئر ہوتا ہے جس کی مدد سے ایک شخص کسی کی ڈیوائس (جیسے موبائل فون) کے ذریعے ان کی جاسوسی کرسکتا ہے۔
اس مسائل سے نمٹنے کے لیے ایوا گلپرن نے سنہ 2019 میں سٹاکر ویئر کے خلاف ایک تنظیم (کولیشن اگینسٹ سٹاکر ویئر) قائم کی تھی۔
اطلاعات کے مطابق ریپ کے کئی مبینہ متاثرین کو ڈر رہتا ہے کہ انھیں نشانہ بنانے والے لوگ ٹیکنالوجی کی مدد سے دوبارہ ان کی زندگی میں داخل ہو سکتے ہیں۔ اسے مدنظر رکھتے ہوئے ایوا نے اس کے خلاف اقدامات کا فیصلہ کیا۔
وہ بتاتی ہیں کہ جب کسی کے پاس آپ کے فون تک رسائی ہو تو استحصال کے امکانات مزید بڑھ جاتے ہیں، مثلاً متاثرین کو بلیک میل کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی نجی تصاویر شیئر کریں۔
ایوا کے مطابق گھریلو تشدد کے جتنے بھی معاملات ان کی نظر سے گزرتے ہیں ان میں ہمیشہ کسی طرح کی ٹیکنالوجی کے ذریعے ہراسانی کی جاتی ہے اور اس میں اکثر سٹاکر ویئر بھی شامل ہوتا ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ یہ سب پُرتشدد کیسز سے جڑا ہوتا ہے کیونکہ یہ زبردستی کنٹرول حاصل کرنے کا طاقتور ہتھیار ہے۔
تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ سٹاکر ویئر جیسے سافٹ ویئرز کا اضافہ ایک بڑی مشکل ہے۔ نورٹن لیبز کی ایک تحقیق کے مطابق ستمبر 2020 سے مئی 2021 کے دوران ایسی ڈیوائسز کی گنتی 63 فیصد تک بڑھی جن میں سٹاکر ویئر انسٹال ہو چکا تھا۔
اس رپورٹ کے مطابق یہ بڑا اضافہ لاک ڈاؤن کے اثرات کی وجہ سے ہو سکتا ہے جب لوگ زیادہ وقت گھروں میں رہنے لگے تھے۔
اس رپورٹ کے مطابق ذاتی اشیا ہمیشہ ایک دوسرے کے قریب ہی ہوتی ہیں۔ اس سے کسی مجرم کے پاس موقع ہوتا ہے کہ وہ اپنے پارٹنر کی ڈیوائس پر سٹاکر ویئر انسٹال کر دے اور ٹیکنالوجی کی مدد سے ان کا استحصال کرے.
گذشتہ دو برسوں کے دوران ایوا نے اینٹی وائرس کمپنیوں کو راضی کر لیا ہے کہ وہ اس طرح کے خطرناک سافٹ ویئر کو زیادہ سنجیدگی سے لیں۔ اس طرح سٹاکر ویئر کو ناپسندیدہ پروگرامز یا میلویئر کی فہرست میں شامل کر لیا گیا۔
اکتوبر میں گوگل نے ایسے کئی اشتہارات کو ہٹایا ہے جن کے ذریعے اپنے پارٹنرز کی جاسوسی کا سافٹ ویئر بیچا جا رہا تھا۔
ان ایپس کو اکثر یہ کہہ کر فروخت کیا جاتا ہے کہ یہ ان والدین کے لیے ہے جو اپنے بچے کی حرکات و سکنات اور پیغامات کی نگرانی کرنا چاہتے ہیں۔ مگر بعض لوگ انھیں اپنے پارٹنر پر جاسوسی کے لیے استعمال کرنے لگتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں