Malik Riaz and his son Ali Riaz 261

برطانیہ کی کورٹ آف اپیل نے پاکستان کی اہم کاروباری شخصیت ملک ریاض اور ان کے بیٹے علی ریاض کے ویزے منسوخ کرنے کے برطانوی وزارت داخلہ کے اپر ٹریبونل کے فیصلے کو درست قرار دیا ہے

(سٹاف رپورٹ،تازہ اخبار،پاک نیوز پوائنٹ )
جمعے کو جاری ہونے والے فیصلے میں خاتون جج نیکولا ڈیویز نے تفصیل سے اس فیصلے کی وجوہات بیان کی ہیں کہ انھوں نے کس بنیاد پر ملک ریاض اور ان کے بیٹے علی ریاض کے ویزے کی منسوخی کو درست قرار دیا ہے اور کیسے یہ دونوں باپ بیٹا برطانوی عوام کے مفاد میں برطانیہ کی سر زمین پر قدم رکھنے کے قابل نہیں رہے.
اس فیصلے سے بینچ میں شامل دیگر دو ججز نے بھی اتفاق کیا ہے۔ ان ججز میں جسٹس نوگی اور جسٹس سنوڈن شامل ہیں.
برطانوی عدالت کے فیصلے میں بتائی گئیں وجوہات جاننے سے قبل اس پورے مقدمے کا پس منظر جاننا از حد ضروری ہے.
دو برس قبل یعنی 2019 میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے ملک ریاض کے خلاف تحقیقات کیں اور پھر ان تحقیقات کے نتیجے میں ملک ریاض نے مقدمہ لڑنے کے بجائے برطانوی تحقیقاتی ایجنسی سے تصفیہ کر لیا.
برطانوی ایجنسی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ملک ریاض حسین اور ان کا خاندان تصفیے کے تحت جو 19 کروڑ پاؤنڈ کی رقم یا اثاثے دے گا ان میں منجمد کیے جانے والے بینک اکاؤنٹس میں موجود رقم کے علاوہ مرکزی لندن کے متمول علاقے میں واقع ون ہائیڈ پارک پلیس نامی عمارت کا ایک اپارٹمنٹ بھی شامل ہے، جس کی مالیت پانچ کروڑ پاؤنڈ کے لگ بھگ ہے.
برطانوی ججز کے مطابق سنہ 2017 میں لندن کے بینک میں ملک ریاض کے بیٹے علی ریاض ملک اور ان کی اہلیہ مبشرہ علی ملک کے پاس 56,917,357.00 پاؤنڈ تھے۔ دسمبر تک اسی بینک کے اکاؤنٹ میں یہ رقم بڑھ کر 138,505,397.00 پاؤنڈ ہو گئی.
برطانونی جج جسٹس نکولا ڈیویز کے مطابق ایک خاص وقت میں برطانیہ میں ملک ریاض کے خاندان کے اثاثوں میں اس قدر اضافہ بہت زیادہ مشکوک ہے اور اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ یہ اضافہ حکومت پاکستان سے سزا سے بچنے کی خاطر کیا گیا، جب وہاں کچھ سیاسی اور جوڈیشل پیشرفت میں بحریہ ٹاؤن کا کردار مشکوک ہو گیا تھا۔ برطانوی جج کے مطابق پاکستانی اداروں کی نظروں سے بچا کر اس تناظر میں یہ پیسہ برطانیہ تک پہنچایا گیا اور اب یہاں یعنی لندن میں ان اثاثوں کی قابل وصول مالیت 119,426,532.82 پاؤنڈ بنتی ہے۔ ملک ریاض کا این سی اے کے ساتھ تصفیہ 2019 میں ہوا جس کی تفصیلات این سی اے کی پریس ریلیز سے حاصل ہوتی ہیں.
این سی اے نے بتایا کہ اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی 190 ملین پاؤنڈز کی رقم ریاست پاکستان کی ملکیت ہے جسے پاکستان منتقل کر دیا جائے گا.
این سی اے نے تو اپنا وعدہ پورا کیا مگر یہ رقم پاکستان کے قومی خزانے میں پہنچنے کے بجائے سیدھی سپریم کورٹ کے اس اکاؤنٹ تک پہنچی جس میں ملک ریاض بحریہ ٹاؤن کراچی کے مقدمے میں سپریم کورٹ کو 460 بلین روپے کی ایک تصفیے کے ذریعے قسطوں میں ادائیگی کر رہے ہیں.
یعنی جو رقم ریاست پاکستان کی ملکیت تھی وہ ملک ریاض کے ذاتی قرض کو پورا کرنے میں خرچ ہوئی۔ ملک ریاض سے این سی اے نے جو معاہدہ کیا اس کی تفصیلات رازداری میں رکھی گئی ہیں اور این سی اے کے بعد حکومت پاکستان نے بھی یہ تفصیلات نہیں بتائیں کہ ریاست پاکستان کا پیسہ دوبارہ کیسے ملک ریاض کے استعمال میں لایا گیا.
این سی اے کی وضاحت کے بعد ملک ریاض کی جانب سے ٹوئٹر پر شائع کیے گئے پیغام میں کہا گیا ہے کہ کچھ عادی ناقدین این سی اے کی رپورٹ کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہے ہیں اور ان کی کردار کشی کی جا رہی ہے.
ان کا کہنا تھا کہ میں نے سپریم کورٹ کو کراچی بحریہ ٹاؤن مقدمے میں 19 کروڑ پاؤنڈ کے مساوی رقم دینے کے لیے برطانیہ میں قانونی طور پر حاصل کی گئی ظاہر شدہ جائیداد کو فروخت کیا.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں