UAE Government Introduces Special Family Laws for Non-Muslim 266

متحدہ عرب امارات حکومت نے ابوظبی میں مقیم غیر مسلم تارکین کے لیے خصوصی فیملی لاز متعارف کرا دیے

(سٹاف رپورٹ،تازہ اخبار،پاک نیوز پوائنٹ )

متحدہ عرب امارات کی لوکل نیوز ایجنسی کے مطابق امارات کے صدر شیخ خلیفہ بن زاید آل نھیان نے نئے قانون کی منظوری دے دی ہے.
مذکورہ قانون نافذ کرنے کا مقصد ریاست میں مقیم غیرمسلموں کے حالات سے ہم آہنگی اور ملک میں قیام کے دوران ان کے عائلی نزاعات کو سلجھانا ہے.
ابوظبی عدلیہ کے سکریٹری اور قانونی مشیر یوسف سعید العبری نے کہا ہے کہ “ریاست ابوظبی میں مقیم غیر مسلموں کے لیے نافذ ہونے والا عائلی قانون اپنی نوعیت کا منفرد تجربہ ہے” ریاست ابوظبی میں نافذ ہونے والا قانون غیر مسلموں پر لاگو ہوگا جس میں عالمی قانونی شقوں پر عمل کیا جائے گا۔
مذکورہ قانون پر منظوری حاصل کرنے سے پہلے اسے دنیا میں رائج قوانین کے مطابق ڈھالنے کے بعد انتہائی غور فکر کے بعد تیار کیا گیا ہے.
انہوں نے کہا ہے کہ غیر مسلموں کے لیے عائلی قوانین کے لیے عدلیہ کے تحت الگ یونٹ قائم کیا گیا ہے جہاں عدالتی کارروائی عربی اور انگریزی زبان میں ہوگی.
نئے عائلی قوانین میں 20 سے زیادہ دفعات شامل کئے ہیں جو نجی زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرتے ہیں.
غیر مسلموں کے لیے نافذ کئے جانے والے قانون کی ایک شق شادی بیاہ اور طلاق کے قوانین پر مشتمل ہے.
اس کی دوسری شق زوجین کے حقوق و واجبات کے متعلق ہے جس میں طلاق کی صورت میں جائیداد کی تقسیم اور مالی معاملات ہیں.
نئے قانون کی تیسری شق میں طلاق کے بعد بچوں کی کفالت کے معاملات ہیں.
انہوں نے کہا ہے کہ ’نئے قانون کے چوتھی شق وصیت اور ترکہ کے متعلق ہے جس میں ریاست میں مقیم غیرمسلم کو اپنی پوری جائیداد یا اس میں سے کچھ حصہ کسی کو صیت کرنے کا اختیار ہے.
ابوظہبی میں غیر مسلم جوڑے اب “شوہر اور بیوی دونوں کی مرضی کی بنیاد پر” شادی کر سکتے ہیں، یعنی اب بیوی کے سرپرست کی رضامندی لازمی نہیں ہے۔
میاں بیوی کو اب یہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ طلاق کی درخواست دینے میں ایک فریق کی غلطی تھی۔ پہلے نقصان ثابت ہونا پڑتا تھا ورنہ طلاق نہیں دی جاتی تھی۔
اب کوئی بھی شریک حیات عدالت سے بغیر الزام لگائے شادی ختم کرنے کے لیے کہہ سکتا ہے۔
فیملی گائیڈنس ڈیپارٹمنٹ میں جانے کی ضرورت کے بغیر اب پہلی سماعت پر طلاق دی جا سکتی ہے۔
طلاق لینے والے جوڑوں کو بھی اب لازمی ثالثی سیشنز سے گزرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اس کے بعد کی دیگر درخواستیں “طلاق کے بعد کی درخواست فارم” کے ذریعے جمع کرائی جائیں گی۔ مالی درخواستوں سے متعلق تنازعہ کی صورت میں، کئی عوامل کو مدنظر رکھا جائے گا، جن میں شادی کی طوالت، بیوی کی عمر اور ہر شریک حیات کی مالی حیثیت شامل ہے۔
کسی بھی بچے کی تحویل والدین کے درمیان ایک مشترکہ اور مساوی حق ہو گا تاکہ “بچے کی نفسیاتی صحت کو محفوظ رکھا جا سکے اور بچے پر طلاق کے اثرات کو کم کیا جا سکے”۔
تحویل پر تنازعہ کی صورت میں، عدالت کو مداخلت کرنے اور معاملے پر فیصلہ کرنے کے لیے کہا جا سکتا ہے۔ بنیادی غور ہمیشہ بچے کے بہترین مفادات پر ہوگا۔
اس سے پہلے، ایک ماں کو صرف اس کے بیٹے کی تحویل اس وقت تک دی جاتی تھی جب تک کہ وہ 11 سال کی عمر کو نہ پہنچ جائے، اور اس کی بیٹی کو 13 سال کی عمر تک

نیا قانون کسی غیر ملکی کے اس حق کو یقینی بناتا ہے کہ وہ اپنی جائیداد جسے چاہے دے دے گا۔
وصیت کی غیر موجودگی میں، اب کسی شخص کی آدھی جائیداد زندہ بچ جانے والی شریک حیات کے پاس جائے گی۔ باقی آدھا میت کے بچوں میں برابر تقسیم کیا جائے گا۔
پہلے، ایک بیٹا وراثت کا بڑا حصہ حاصل کرتا تھا۔
اگر میت کی کوئی اولاد نہیں ہے تو وراثت ان کے والدین کے پاس جائے گی، یا یہ ایک زندہ بچ جانے والے والدین اور میت کے بہن بھائیوں کے درمیان یکساں طور پر تقسیم ہو سکتی ہے۔
غیر مسلموں کی وصیت کو ان کے نکاح نامہ پر دستخط کے دوران رجسٹر کیا جانا چاہیے۔
ولدیت کا ثبوت
نئے قانون میں کہا گیا ہے کہ غیر مسلموں کے لیے ولدیت کا ثبوت شادی یا ولدیت کی پہچان پر مبنی ہوگا۔
پچھلے سال نومبر میں، متحدہ عرب امارات کی حکومت نے سالوں میں قانونی نظام کی سب سے بڑی تبدیلیوں میں سے ایک کا آغاز کیا، جس میں خاندانی قانون اور لوگوں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرنے والے دیگر شعبوں میں تبدیلیاں کی گئیں۔
تازہ ترین تبدیلیاں یو اے ای کے قوانین میں متعدد ترامیم کے بعد 50 کے پراجیکٹس کے ایک حصے کے طور پر اعلان کی گئی ہیں، یہ پرجوش اقدامات کا ایک مجموعہ ہے جو اقتصادی ترقی کو فروغ دے گا اور ملک کو اگلے 50 سالوں کے لیے ترقی کی راہ پر گامزن کرے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں