ملکہء سخن ثمینہ راجہ،پی این پی نیوز ایچ ڈی
دشت میں اک طلسمِ آب کے ساتھ
دور تک ہم گئے سراب کے ساتھ
پھر خزاں آئی اور خزاں کے بعد
خار ِکِھلنے لگے گلاب کے ساتھ
رات بھر ٹوٹتی ہوئی نیندیں
جڑ گئیں سحرِ ماہتاب کے ساتھ
ہم سدا کی طرح بجھے ہوئے تھے
وہ تھا پہلی سی آب و تاب کے ساتھ
چھوٹی عمروں کی پہلی پہلی بات
کچھ تکلف سے کچھ حجاب کے ساتھ
اور پھر یہ نگاہِ خیرہ بھی
ڈوب جائے گی آفتاب کے ساتھ
رات کی طشتری میں رکھی ہیں
میری آنکھیں کسی کے خواب کے ساتھ
اس گلی میں نہ کیسے کوئی جائے
شام کو اس دلِ خراب کے ساتھ
یہ فقط رسم ہی نہیں اے دوست
دل بھی شامل ہے انتساب کے ساتھ